میت پر بین اور چیخ چیخ کر رونے سے عذاب ہونا
ماخوذ : فتاویٰ علمیہ، جلد 1، کتاب الجنائز، صفحہ 548

عذاب قبر

میت پر رونے سے عذاب کا مسئلہ

سوال:

زندہ افراد کے چیخ چیخ کر رونے (نوحہ کرنے) کی وجہ سے میت پر عذاب واقع ہوتا ہے۔ اس بارے میں عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یقین ہے اور یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوع احادیث کے ذریعے ثابت ہے۔
صحیح بخاری، صحیح مسلم ،نسائی، مؤطا امام مالک

 حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں:
"اللہ عبد الرحمٰن (عبداللہ بن عمر) کو عافیت دے، وہ بھول گئے، ایک یہودی عورت کی قبر تھی جس پر اس کے گھر والے رو رہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے گزرے تو فرمایا: یہ لوگ اوپر رو رہے ہیں اور نیچے اس کو عذاب قبر ہو رہا ہے۔”

خلاصہ

◈ دونوں اقوال میں سے درست کون سا ہے؟
◈ اگر دونوں صحیح ہیں تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اختلاف کیوں فرمایا؟
◈ اس مسئلے کو مکمل دلائل کے ساتھ پوری دنیا تک پہنچایا جائے۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

میت پر بین اور چیخ چیخ کر رونے سے عذاب ہونا

یہ بات پوری طرح ثابت ہے کہ میت پر اس کے اقرباء کے بین اور چیخ و پکار کے ساتھ رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔ اس مفہوم کو درج ذیل صحابہ کرام نے بیان کیا ہے:

عمر بن الخطاب، عبد اللہ بن عمر

(صحیح البخاری: 1286، 1287، 1288، صحیح مسلم: 927، 928، 929)

عمران بن حصین

(النسائی 4/15 حدیث نمبر 185، اور ابن حبان نے صحیح قرار دیا: حدیث نمبر 742)

مغیرہ بن شعبہ

(صحیح بخاری: 129، صحیح مسلم: 933)

سمرہ بن جندب

(الطبرانی الکبیر 7/216 حدیث نمبر 6896)

➎ دیگر صحابہ کرام

بھی اس کی روایت کرتے ہیں۔

حدیث کی حیثیت

یہ حدیث "متواتر” ہے۔

قطف الازھار المتنا ثرہ فی الاخبار المتواترۃ للسيوطي (حدیث نمبر 44)
نظم المتنا ثر من الحديث المتواتر للکتاني (حدیث نمبر 106)

سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور دیگر صحابہ کے اقوال میں تطبیق

اس مسئلہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بیانات میں کوئی حقیقی تضاد نہیں ہے۔ امام الحدیث اور علم حدیث کے عظیم امام، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

"قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَذَّبُ الْمَيِّتُ بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ إِذَا كَانَ النَّوْحُ مِنْ سُنَّتِهِ …..فَإِذَا لَمْ يَكُنْ مِنْ سُنَّتِهِ فَهُوَ كَمَا قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى”
(صحیح البخاری، کتاب الجنائز، باب 32، قبل حدیث نمبر 1284)

تفصیل:

– اگر میت اپنی زندگی میں نوحہ کرنے پر راضی تھا یا منع نہیں کرتا تھا، تو اس کے مرنے کے بعد اس کے اہل خانہ کے بین کرنے پر اسے عذاب ہوگا۔
– اگر میت نوحہ وغیرہ کا قائل نہ تھا اور ان کاموں سے منع کرتا تھا تو قرآن کریم کے اصول کے مطابق:

"لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى

یعنی "کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔”

– یوں دونوں اقوال میں مکمل تطبیق ہو جاتی ہے اور کوئی اختلاف باقی نہیں رہتا۔ اور یہی قول راجح ہے۔

الحدیث: 1 (شہادت، جولائی 2004ء)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1