نماز جنازہ میں سلام کیسے پھیریں؟
سوال:
نماز جنازہ میں دونوں طرف سلام پھیرنا چاہیے یا صرف ایک طرف؟
(ابو ثاقب محمد صفدر حضروی)
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
دلائل اور احادیث:
1. سنن نسائی کی روایت:
سنن نسائی (الصغریٰ 4/75، حدیث 1991، ترقیم التعلیقات السلفیہ) میں سیدنا ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ:
السنة في الصلاة على الجنازة أن يقرأ في التكبيرة الأولى بأم القرآن مخافتة ، ثم يكبر ثلاثا ، والتسليم عند الآخرة
یعنی نماز جنازہ میں سنت یہ ہے کہ پہلی تکبیر کے بعد سورۃ الفاتحہ آہستہ (خفیہ) پڑھنی چاہیے، پھر تین تکبیریں کہی جائیں اور آخر میں سلام پھیرا جائے۔
- یہ روایت صحیح ہے اور السنن الکبریٰ للنسائی (جلد1، صفحہ644، حدیث2116) میں بھی مذکور ہے۔
- ابن الملقن نے اسے تحفۃ المحتاج (حدیث788) اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری (3/203-204، حدیث1335) میں صحیح قرار دیا ہے۔
2. مصنف عبدالرزاق اور مثقی ابن الجارود کی روایت:
مصنف عبدالرزاق (جلد3، صفحہ489، حدیث6428) اور مثقی ابن الجارود (حدیث540، واللفظ لہ) میں سیدنا ابو امامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ:
السنة في الصلاة على الجنائز أن تكبر ، ثم تقرأ بأم القرآن ، ثم تصلي على النبي صلى الله عليه وسلم ، ثم تخلص الدعاء للميت ولا تقرأ إلا في التكبيرة الأولى ثم تسلم في نفسه عن يمينه
یعنی نماز جنازہ میں سنت یہ ہے کہ:
- تکبیر کہے۔
- سورۃ الفاتحہ پڑھے۔
- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے۔
- خالص دعا میت کے لیے کرے۔
- قرأت صرف پہلی تکبیر میں ہو۔
- اور اپنی دائیں طرف آہستہ سلام پھیرا جائے۔
- اس روایت کی سند صحیح ہے۔
- امام ابن شہاب الزہری نے سماع کی تصریح کردی ہے۔
- ابو امامہ اسعد بن سہل بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ صغار صحابہ میں سے تھے۔
صحابہ کی مراسیل:
- اہل سنت کے راجح مسلک میں صحابہ کی مراسیل بھی صحیح اور مقبول ہوتی ہیں۔ (اختصار علوم الحدیث ابن کثیر، صفحہ58، تیسیر مصطلح الحدیث صفحہ74)
3. امام ابن الجارود النیسابوری رحمہ اللہ کا موقف:
- امام ابن الجارود نے مثقی ابن الجارود میں اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔
4. ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سند:
- ابو امامہ نے یہ حدیث ایک صحابی سے سنی تھی۔ (الاوسط لابن المنذر جلد5 صفحہ446، السنن الکبری للبیہقی جلد4 صفحہ40، معانی الآثار للطحاوی جلد1 صفحہ500، المستدرک للحاکم جلد1 صفحہ360)
- حاکم اور ذہبی دونوں نے اس روایت کو صحیح کہا ہے۔
5. "من السنة” کا مفہوم:
- جب کوئی صحابی "من السنة” کہے تو وہ مرفوع حدیث کے حکم میں ہوتا ہے۔ (تیسیر مصطلح الحدیث صفحہ132)
6. امام ابن المنذر اور دیگر ائمہ کا موقف:
- امام ابو بکر محمد بن ابراہیم بن المنذر النیسابوری رحمہ اللہ وغیرہ نے اسی حدیث سے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ نماز جنازہ میں صرف دائیں طرف سلام پھیرنا چاہیے۔ (الاوسط جلد5 صفحہ448)
آثار صحابہ:
1. سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عمل:
ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے:
عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّهُ كَانَ إذَا صَلَّى عَلَى الْجِنَازَةِ رَفَعَ يَدَيْهِ فَكَبَّرَ , فَإِذَا فَرَغَ سَلَّمَ عَلَى يَمِينِهِ وَاحِدَةً (المصنف ج3 ص307، حدیث11491)
2. تابعین کا عمل:
- امام مکحول الشامی رحمہ اللہ (مصنف ابن ابی شیبہ ج3 ص308، حدیث11506)
- ابراہیم بن یزید الحنفی (مصنف عبدالرزاق ج3 ص493 حدیث6445)
3. امام عبد اللہ بن المبارک رحمہ اللہ کا قول:
- جو شخص جنازہ میں دو سلام پھیرتا ہے وہ جاہل ہے۔ (مسائل ابی داؤد صفحہ154)
خلاصہ:
- نماز جنازہ میں صرف ایک سلام دائیں طرف پھیرنا ہی راجح ہے۔
- یہی موقف اکثر اہل علم کا ہے، جیسا کہ: عبد الرحمٰن بن مہدی، امام احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ وغیرہ۔ (الاوسط جلد5 صفحہ447)
- حرمین شریفین میں بھی اسی پر عمل جاری ہے، والحمد للہ۔
جو لوگ دونوں طرف سلام کے قائل ہیں ان کے دلائل کا جائزہ:
1. حدیث ابن ابی اوفی:
(السنن الکبری للبیہقی جلد4 صفحہ43)
اس روایت کی کمزوریاں:
- راوی ابراہیم بن مسلم الہجری ضعیف ہے۔
- شریک بن عبداللہ القاضی مدلس ہیں۔
- مختلف شاگردوں کی روایتوں میں دونوں طرف سلام کا ذکر نہیں۔
نتیجہ: یہ روایت قابلِ حجت نہیں۔
2. حدیث ابن مسعود:
(السنن الکبری للبیہقی جلد4 صفحہ43، المعجم الکبیر للطبرانی جلد10 صفحہ100 حدیث10022)
اس روایت کی کمزوریاں:
- حماد بن ابی سلیمان اختلاط کا شکار تھے۔
- حماد مدلس تھے۔
- ابراہیم نخعی بھی مدلس تھے۔
نتیجہ: یہ روایت بھی ضعیف ہے۔
نماز جنازہ میں قراءت:
- قراءت خفیہ (سراً) بھی جائز ہے۔
- قراءت جہراً (بلند آواز سے) بھی جائز ہے۔ (سنن النسائی جلد4 صفحہ74-75 حدیث9189، مثقیٰ ابن الجارود حدیث537)
- امام جہراً پڑھے گا اور مقتدی سراً۔ (ابن الجارود حدیث536)
نتیجہ:
نماز جنازہ میں صرف دائیں طرف ایک سلام پھیرنا چاہیے۔
قراءت خفیہ اور جہری دونوں صورتوں میں جائز ہے۔