حدیث شفاعت کے 3 بنیادی مباحث—تشریح، ازالہ اعتراض، نجات
ماخوذ : فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری جلد نمبر 1، صفحہ نمبر 144

سوال

حدیث «شفعت الملائکة وشفع النبيون…» کی وضاحت

جواب 

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 

 حدیث کا اصل متن اور مراجع

> **«شفعت الملائکة وشفع النبيون وشفع المومؤمنون، ولم يبق إلا أرحم الراحمين، فيقبض قبضة من النار فيخرج منها قوماً لم يعملوا خيراً …»**
> *(بخاری مع الفتح – کتاب التوحید، باب قول الله **(وجوه يومئذٍ ناضرة)** (7439) 13/421؛ مسلم – کتاب الایمان، باب معرفة طریق الرؤیة (183) 1/167، واللفظ لمسلم)*

شراحِ حدیث کی عمومی تشریحات

– تمام معروف شُرّاحِ حدیث نے جو کچھ لکھا ہے، وہی موقف میرے نزدیک صحیح ہے۔
– آپ کے بیان کردہ “موحِّدینِ جاہلیت” یا عقل و فطرت کے ذریعے خدا کو پہچاننے والوں (اگر وہ اہلِ فَتْرَہ نہ ہوں) پر یہ حدیث اس طرح منطبق نہیں ہو سکتی؛ کیونکہ حدیث میں مطلق **عملِ خیر** کی مکمل نفی کی گئی ہے، خواہ یہ عمل:
– اقرار و یقینِ توحید کسی نبی کے واسطے سے ہو، یا
– بلا واسطۂ رسول، صرف عقل و فطرت کے ذریعے ہو۔

اعتراض اور اس کا ازالہ

– اعتراض: **“وَخَيْر”** نکرہ اور نفی کے سیاق میں ہے، جو عموم پر دلالت کرتا ہے۔
– جواب: یہ اصول مسلم ہے کہ
> *«ما مِن عامٍّ إلا وقد خُصَّ منه، إلا قوله: **إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ**، وقوله: **كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ** (وغیرہ)»*
– لہٰذا دیگر احادیث کی رعایت کرتے ہوئے، یہاں **توحید و رسالت کے اقرار و اذعان** کے سوا باقی تمام اعمالِ قلب کی نفی مقصود ہے۔

 اہلِ فَتْرَہ اور ان کی نجات

**موحِّدینِ اہلِ فَتْرَہ** ضرور نجات پائیں گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
> *«وما كنا معذبين حتى نبعث رسولا»*
– البتہ ان کی نجات کی صورت وہ نہیں جو آپ نے سمجھی ہے۔
– کہا گیا ہے کہ انہیں محشر میں آزمائش ہوگی:
– انہیں حکم دیا جائے گا کہ وہ اپنے آپ کو آگ میں ڈال دیں۔
– **جو اطاعت کرے گا، نجات پائے گا؛ اور جو انکار کرے گا، ہلاک ہوگا۔**

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

 

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1