سوال
حدیث «شفعت الملائکة وشفع النبيون…» کی وضاحت
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حدیث کا اصل متن اور مراجع
> **«شفعت الملائکة وشفع النبيون وشفع المومؤمنون، ولم يبق إلا أرحم الراحمين، فيقبض قبضة من النار فيخرج منها قوماً لم يعملوا خيراً …»**
> *(بخاری مع الفتح – کتاب التوحید، باب قول الله **(وجوه يومئذٍ ناضرة)** (7439) 13/421؛ مسلم – کتاب الایمان، باب معرفة طریق الرؤیة (183) 1/167، واللفظ لمسلم)*
شراحِ حدیث کی عمومی تشریحات
– تمام معروف شُرّاحِ حدیث نے جو کچھ لکھا ہے، وہی موقف میرے نزدیک صحیح ہے۔
– آپ کے بیان کردہ “موحِّدینِ جاہلیت” یا عقل و فطرت کے ذریعے خدا کو پہچاننے والوں (اگر وہ اہلِ فَتْرَہ نہ ہوں) پر یہ حدیث اس طرح منطبق نہیں ہو سکتی؛ کیونکہ حدیث میں مطلق **عملِ خیر** کی مکمل نفی کی گئی ہے، خواہ یہ عمل:
– اقرار و یقینِ توحید کسی نبی کے واسطے سے ہو، یا
– بلا واسطۂ رسول، صرف عقل و فطرت کے ذریعے ہو۔
اعتراض اور اس کا ازالہ
– اعتراض: **“وَخَيْر”** نکرہ اور نفی کے سیاق میں ہے، جو عموم پر دلالت کرتا ہے۔
– جواب: یہ اصول مسلم ہے کہ
> *«ما مِن عامٍّ إلا وقد خُصَّ منه، إلا قوله: **إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ**، وقوله: **كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ** (وغیرہ)»*
– لہٰذا دیگر احادیث کی رعایت کرتے ہوئے، یہاں **توحید و رسالت کے اقرار و اذعان** کے سوا باقی تمام اعمالِ قلب کی نفی مقصود ہے۔
اہلِ فَتْرَہ اور ان کی نجات
– **موحِّدینِ اہلِ فَتْرَہ** ضرور نجات پائیں گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
> *«وما كنا معذبين حتى نبعث رسولا»*
– البتہ ان کی نجات کی صورت وہ نہیں جو آپ نے سمجھی ہے۔
– کہا گیا ہے کہ انہیں محشر میں آزمائش ہوگی:
– انہیں حکم دیا جائے گا کہ وہ اپنے آپ کو آگ میں ڈال دیں۔
– **جو اطاعت کرے گا، نجات پائے گا؛ اور جو انکار کرے گا، ہلاک ہوگا۔**
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب