علمِ ارحام سے متعلق 5 حقائق قرآن و سنت کی روشنی میں
ماخوذ: فتاویٰ ارکان اسلام

ارحام کا علم صرف اللہ کے پاس ہے

سوال

آج کل ڈاکٹروں کو یہ علم ہو جاتا ہے کہ ماں کے پیٹ میں لڑکا ہے یا لڑکی، جبکہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿وَيَعلَمُ ما فِى الأَرحامِ﴾
(٣٤، سورة لقمان)
’’اور وہی (حاملہ کے) پیٹ کی چیزوں کو جانتا ہے (کہ نر ہے یا مادہ)۔‘‘

اسی حوالے سے تفسیر ابن جریر میں امام مجاہد رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اس کی بیوی کیا جنے گی، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی۔ امام قتادہ رحمہ اللہ سے بھی ایسی ہی روایت مروی ہے۔
سوال یہ ہے کہ ان روایات اور جدید سائنسی انکشافات میں تطبیق کیسے دی جائے گی؟ نیز ﴿فِى الأَرحامِ﴾ کے عموم کا مخصص کیا ہوگا؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن کریم کی صراحت اور امر واقع میں عدمِ تعارض

گفتگو سے قبل یہ وضاحت ضروری ہے کہ قرآن کریم کی واضح تصریحات کبھی بھی امر واقع سے متعارض نہیں ہو سکتیں۔ اگر بظاہر کوئی امر واقع قرآن کے خلاف دکھائی دے تو وہ یا تو بے بنیاد دعویٰ ہوگا یا قرآن کریم کا مطلب صحیح طور پر سمجھا نہیں گیا ہوگا۔ قرآن اور حقیقت دونوں قطعی الامور ہیں اور ان میں باہمی تعارض ممکن نہیں۔

ڈاکٹروں کے آلات اور جنین کی شناخت

بیان کیا جاتا ہے کہ آج کے دور میں ڈاکٹروں نے ایسے دقیق آلات ایجاد کر لیے ہیں جن کے ذریعے یہ معلوم کر لیا جاتا ہے کہ ماں کے پیٹ میں لڑکا ہے یا لڑکی۔ اگر یہ بات جھوٹی ہو تو گفتگو کی ضرورت نہیں، اور اگر یہ سچ ہے تب بھی قرآن کریم کی آیت کے خلاف نہیں۔

آیت قرآنی ایک غیبی امر پر دلالت کرتی ہے جو کہ ان پانچ امور میں سے ہے جن کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ جنین کے متعلق یہ غیبی امور درج ذیل ہیں:
◈ پیٹ میں بچے کی مدتِ حمل کتنی ہوگی؟
◈ اس کی زندگی اور موت کی تفصیلات کیا ہوں گی؟
◈ اس کے اعمال کیسے ہوں گے؟
◈ رزق کی مقدار کیا ہوگی؟
◈ شقاوت یا سعادت کا مقدر کیا ہوگا؟
◈ نر ہوگا یا مادہ؟

یہ تمام امور تخلیق سے پہلے غیب میں ہوتے ہیں، جبکہ تخلیق کے بعد ان کا علم ظاہر ہو جاتا ہے۔
جنین تین اندھیروں (رحم، پیٹ، اور پردوں) میں چھپا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسی طاقتور شعاعیں پیدا کر دی ہیں جو ان اندھیروں کو چیر کر اندر کا حال دکھا سکتی ہیں۔

نر یا مادہ کی وضاحت

واضح رہے کہ آیت کریمہ میں صرف نر یا مادہ کے علم کا صریح ذکر نہیں ہے۔ اسی طرح کسی حدیث میں بھی یہ تصریح موجود نہیں کہ علمِ ارحام سے صرف جنسِ جنین مراد ہے۔

امام مجاہد اور امام قتادہ کی روایات

سائل نے جو امام مجاہد رحمہ اللہ کی روایت ابن جریر کے حوالے سے ذکر کی ہے کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی بیوی کے حمل کے بارے میں پوچھا، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، یہ روایت منقطع ہے کیونکہ امام مجاہد تابعی ہیں۔
امام قتادہ رحمہ اللہ کی تفسیر کو بھی تخلیق سے پہلے اللہ تعالیٰ کے مخصوص علم پر محمول کیا جا سکتا ہے۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے سورۃ لقمان کی تفسیر میں فرمایا:

’’اسی طرح اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ ان ارحام سے آئندہ کیا پیدا ہونے والا ہے، لیکن جب اللہ تعالیٰ حکم فرما دیتا ہے کہ یہ نر ہوگا یا مادہ، خوش بخت ہوگا یا بدبخت، تو یہ باتیں جنین کے ساتھ متعین فرشتوں کو اور جسے اللہ چاہے مخلوق میں سے بھی معلوم کرا دیتا ہے۔‘‘

﴿مَا فِی الْاَرْحَامِ﴾ کے عموم کا مخصص

سوال میں جو پوچھا گیا ہے کہ آیت کے عموم کا مخصص کیا ہے تو اگر آیت کا مفہوم تخلیق کے بعد معلوم ہونے والے نر یا مادہ سے متعلق ہو، تو مخصص انسانی حواس اور امر واقع ہوں گے۔

علمائے اصول کے نزدیک کتاب و سنت کے عموم کو محدود کرنے والے مخصصات درج ذیل ہو سکتے ہیں:
◈ نص
◈ اجماع
◈ قیاس
◈ عقل

اگر آیت تخلیق سے پہلے کی حالت پر دلالت کرتی ہو تو پھر یہ جدید آلات کے ذریعے نر یا مادہ کی شناخت کے خلاف نہیں ہوگی۔

قرآن کریم اور امر واقع کا باہمی ہم آہنگی

الحمدللہ، امر واقع کی کوئی بھی ایسی چیز نہ کبھی موجود تھی اور نہ ہوگی جو قرآن مجید کی تصریحات کے خلاف ہو۔
اسلام دشمنوں نے قرآن پر اعتراض کرتے ہوئے بظاہر متعارض امور کی نشاندہی کی ہے، لیکن ان کا سبب یا تو ان کا فہم ناقص تھا یا ان کی نیت خراب تھی۔

اہل علم اور دین والے بحث و تحقیق کے بعد اس حقیقت کو پا چکے ہیں کہ قرآن کی تصریحات اور امر واقع دونوں برحق ہیں، اور ہر شبہ زائل ہو جاتا ہے۔ الحمدللہ۔

اعتدال اور افراط و تفریط

اس مسئلے میں کچھ لوگ افراط اور تفریط کا شکار ہو گئے ہیں:
◈ کچھ لوگوں نے قرآن کے بظاہر مفہوم کو لے کر ہر یقینی امرِ واقع کی مخالفت کی، اور اس طرح اپنے ناقص فہم کے باعث خود کو الزام کا مستحق بنا لیا یا قرآن کریم پر اعتراض کا دروازہ کھول دیا۔
◈ بعض لوگوں نے قرآن کی دلالت کو ترک کر کے صرف مادی امور کو اختیار کیا اور نتیجتاً وہ الحاد (بے دینی) میں مبتلا ہو گئے۔

معتدل رویہ

معتدل لوگ وہ ہیں جنہوں نے:
◈ قرآن کریم کی صحیح دلالت کو اختیار کیا۔
◈ امر واقع کے ساتھ اس کی تصدیق کی۔
◈ یہ جان لیا کہ قرآن اور امر واقع دونوں برحق ہیں اور ان میں تصادم ممکن نہیں۔

انہوں نے منقول اور معقول دونوں پر عمل کرتے ہوئے اپنے دین اور عقل کو محفوظ رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اس حق کی طرف رہنمائی فرمائی جس میں لوگ اختلاف کرتے رہے۔
بیشک اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی طرف ہدایت دیتا ہے۔

دعا

اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہمارے تمام مومن بھائیوں کو ہدایت کی توفیق دے، اور ہمیں ہدایت دینے والا، ہدایت یافتہ، اصلاح و تجدید کی دعوت دینے والا نیک اور مصلح قائد بنائے۔
آمین۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1