ہندوستان میں موئے مبارک سے متعلق 6 شرعی ہدایات
ماخوذ : فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری جلد نمبر: 1 صفحہ نمبر: 118

موئے مبارک کی تعظیم، نمائش اور اس سے متعلقہ دعووں کا شرعی حکم

سوال

ہندوستان، خصوصاً دکن اور مدراس کے علاقوں میں مختلف مقامات پر ایسے آثارِ شریف کی موجودگی کا دعویٰ کیا جاتا ہے جہاں موئے مبارک (نبی اکرم ﷺ کے مبارک بال) محفوظ ہیں۔ ان بالوں کی:

  • ہر سال باقاعدہ نمائش کی جاتی ہے۔
  • بہت زیادہ تعظیم و تکریم کی جاتی ہے۔
  • بعض افراد جیسے "زید” کا دعویٰ ہے کہ ان جگہوں پر:
    • آسمان سے ابر سایہ فگن ہوتا ہے،
    • ان گھروں کے افراد کسی تکلیف میں مبتلا نہیں ہوتے،
    • مریضوں کو شفا ملتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ:

  1. کیا ان بالوں کو واقعی موئے مبارک تسلیم کیا جائے؟
  2. کیا ان کی تعظیم جائز ہے؟
  3. کیا ان کی عوامی نمائش شرعاً درست ہے؟

جواب: شرعی رہنمائی

دعویٰ موئے مبارک کی نسبت: شرعی معیار کی ضرورت

  • جب تک کسی معتبر، صحیح اور شرعی طریقے سے یہ ثابت نہ ہو جائے کہ وہ بال واقعی نبی کریم ﷺ کے ہیں، تب تک ان کو موئے مبارک تسلیم کرنا سادہ لوحی اور بے بنیاد عقیدہ ہے۔
  • یہ مسئلہ صرف ہندوستان تک محدود نہیں بلکہ دنیا کے کسی بھی حصے میں ہو، جب تک صحیح ثبوت موجود نہ ہو، کسی بھی بال کو موئے مبارک قرار دینا درست نہیں۔

گدی نشینوں اور سجادہ نشینوں کی طرف سے دعویٰ:

  • بعض گدی نشینوں اور سجادہ نشینوں نے اپنی خانقاہوں کی رونق اور شہرت کے لیے ایسے دعوے گھڑ رکھے ہیں، جو قابل اعتبار نہیں۔
  • ان جگہوں کو تقدس کا مرکز بنانے کے لیے جعلی دعوے کیے جاتے ہیں، جو کہ دینی لحاظ سے انتہائی خطرناک ہیں۔

بالفرض اگر موئے مبارک کی نسبت ثابت ہو جائے تو؟

  • اگر واقعی کسی جگہ موئے مبارک ہونا ثابت ہو جائے، تب بھی:
    • اس کی ایسی نمائش اور ایسی تعظیم جو تعبد کی حد تک پہنچ جائے (یعنی عبادت یا مذہبی رسومات کی شکل اختیار کرے)، یہ طریقہ سراسر ناجائز ہے۔
    • ایسی تعظیم جو شرک کا سبب بنے یا بدعت کو فروغ دے، وہ قابل مذمت ہے۔

زید کے دعووں کا تجزیہ:

  • زید کا یہ کہنا کہ:
    • اس جگہ ابر سایہ فگن ہوتا ہے،
    • اہل خانہ کو کوئی تکلیف نہیں پہنچتی،
    • مریض شفا پاتے ہیں،

    یہ سب دعوے بے اصل اور غیر معتبر ہیں۔

  • ان باتوں کی نہ کوئی شرعی بنیاد ہے، نہ ہی ان کا تجرباتی ثبوت۔

آثار نبوی ﷺ سے تبرک کا حکم: حدیث اور فقہی تشریح

حدیث:

حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
"كان النبى ﷺ فنحن نغسلها للمرضى نستشفى بها”
(صحیح مسلم، کتاب اللباس، باب تحريم استعمال اناء الذهب والفضة على الرجال والنساء، حدیث: 2069، جلد 3، صفحہ 1641)

علامہ امیر یمانیؒ کی تشریح:

علامہ امیر یمانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:

"فيه الا ستشفاء بآثاره ﷺ وبما لا بس جسده الشريف ، كذاقيل ، الا أنه لا يخفى أنه فعل الصحابة لا دليل فيه”
(سبل السلام، جلد 2، صفحہ 119)

تشریح:
  • اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نبی ﷺ کے آثار سے تبرک حاصل کرتے تھے۔
  • تاہم، اس عمل کو بنیاد بنا کر کوئی مستقل شرعی حکم اخذ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ:
    • یہ صحابہ کا ذاتی عمل تھا۔
    • اس پر کوئی قطعی دلیل موجود نہیں ہے۔

تبرک کا صحیح مفہوم

  • تبرک کا مطلب یہ نہیں کہ ان آثار کی ایسی تعظیم کی جائے:
    • جو عبادت کا رنگ اختیار کرے،
    • یا جو مفضی الی الشرک (شرک کی طرف لے جانے والی) ہو۔
  • بلکہ ایسی تعظیم ناجائز اور دین سے تجاوز ہے۔

(ماخذ: مصباح، بستی محرم، 1373ھ)

خلاصہ کلام

  • جب تک مستند طور پر یہ ثابت نہ ہو کہ کوئی بال موئے مبارک ہے، ان کو اس حیثیت سے تسلیم کرنا درست نہیں۔
  • حتیٰ کہ اگر ثابت ہو بھی جائے تو:
    • اس کی عبادت جیسی تعظیم،
    • نمائش اور عوامی رسومات کے ذریعے اس کا تقدس قائم کرنا،
    • یہ سب افعال ناجائز، غیر شرعی اور بدعت کے زمرے میں آتے ہیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1