حدیث جبریل و عبدالقیس میں ایمان کی 2 تعاریف کی تطبیق
ماخوذ : فتاویٰ ارکان اسلام

حدیث جبریل اور حدیث عبدالقیس میں تطبیق کی صورت

حدیث جبریل میں ایمان کی تعریف

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث جبریل میں ایمان کی وضاحت ان الفاظ میں فرمائی:

«اَ لْاِيْمَانُ اَنْ تُؤْمِنَ بِاللّٰهِ، وَمَلَائِکَتِهِ، وَکُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْيَوْمِ الآخِرِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدْرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ»
(صحيح البخاری، الایمان، باب سوال جبرئیل النبیﷺ عن الایمان والاسلام والاحسان، ح: ۵۰؛ مسلم، الایمان، باب بیان الایمان والاسلام والاحسان… ح:۸)

یعنی:
”(ایمان یہ ہے) کہ تم اللہ تعالیٰ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، قیامت کے دن پر اور اچھی و بری تقدیر پر ایمان رکھو۔”

حدیث وفد عبدالقیس میں ایمان کی تعریف

وفدِ عبدالقیس کو ایمان کی جو تعریف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی، وہ یہ ہے:

«بِشَهَادَةِ اَنْ لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَحْدَه لَا شَرِيْکَ لَه، وَاِقَامِ الصَّلَاةِ، وَاِيْتَاءِ الزَّکَاةِ، وَاَدَاءِ الْخُمُسِ مِنَ الْغَنِيْمَةِ»
(صحيح البخاری، الایمان، باب اداء الخمس من الایمان، ح: ۵۳؛ صحیح مسلم، الایمان، باب الامر بالایمان بالله تعالی ورسولهﷺ… ح:۱۷)

یعنی:
”ایمان یہ ہے کہ تم گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں؛ نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو اور مالِ غنیمت میں سے خمس دو۔”

تطبیق کی وضاحت

کتاب و سنت میں تعارض کا انکار

◈ سب سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ کتاب و سنت میں کوئی تعارض (اختلاف یا تضاد) نہیں پایا جاتا۔
◈ نہ تو قرآن کا کوئی مقام دوسرے سے ٹکراتا ہے اور نہ ہی صحیح احادیثِ نبویہ میں کوئی حقیقی تضاد ہے۔
◈ قرآن و سنت اور واقعہ دونوں حق ہیں، اور حق میں باہمی تضاد ممکن نہیں۔

﴿َأَفَلا يَتَدَبَّرونَ القُرءانَ وَلَو كانَ مِن عِندِ غَيرِ اللَّهِ لَوَجَدوا فيهِ اختِلـفًا كَثيرًا﴾
سورۃ النساء

ترجمہ:
”کیا وہ قرآن میں غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کا کلام ہوتا تو اس میں بہت سا اختلاف پاتے۔”

ایمان اور اسلام کی باہمی نسبت

حدیث جبریل:

◈ حدیث جبریل میں دین کو تین درجوں میں تقسیم کیا گیا:

اسلام
ایمان
احسان

حدیث عبدالقیس:

◈ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے عملی مظاہر کو بطورِ ایمان بیان فرمایا ہے۔

مفہوم کی ہم آہنگی:

◈ جب صرف اسلام کا ذکر ہوتا ہے تو اس میں ایمان بھی شامل ہوتا ہے۔
◈ جب صرف ایمان کا ذکر ہوتا ہے تو اس میں اسلام بھی شامل ہوتا ہے۔
◈ اور جب اسلام و ایمان دونوں کا ذکر اکٹھا ہو:

ایمان کا تعلق دل سے ہوتا ہے۔
اسلام کا تعلق ظاہری اعمال اور اعضاء سے ہوتا ہے۔

مفید وضاحت

ایمان: دل میں یقین و تصدیق
اسلام: ظاہری اعمال، جیسے نماز، روزہ، زکوٰۃ، وغیرہ
◈ اس لیے اسلام علانیہ ہے اور ایمان مخفی۔

ایک منافق نماز پڑھتا، زکوٰۃ دیتا اور روزہ رکھتا ہے، بظاہر مسلمان ہے لیکن دل سے مومن نہیں۔

﴿وَمِنَ النّاسِ مَن يَقولُ ءامَنّا بِاللَّهِ وَبِاليَومِ الءاخِرِ وَما هُم بِمُؤمِنينَ﴾
سورۃ البقرہ

ترجمہ:
”اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں، حالانکہ وہ ایمان نہیں رکھتے۔”

دینِ اسلام کی جامعیت

﴿إِنَّ الدّينَ عِندَ اللَّهِ الإِسلـمُ﴾
سورۃ آل عمران، آیت: ۱۹

ترجمہ:
”بیشک دین، اللہ کے نزدیک اسلام ہے۔”

◈ دینِ اسلام: عقیدہ، ایمان اور احکامِ شریعت کا مجموعہ ہے۔

خلاصہ تطبیق

◈ حدیث جبریل میں ایمان کے عقائد کو بیان کیا گیا ہے۔
◈ حدیث عبدالقیس میں ایمان کے ظاہری اعمال کو بیان کیا گیا ہے۔
◈ دونوں حدیثیں اپنے اپنے سیاق و سباق میں مکمل اور صحیح ہیں، اور باہم ہم آہنگ ہیں نہ کہ متعارض۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1