دین میں اعتدال کی حقیقت اور غلو کی مذمت
(سیرتِ طیبہ کی روشنی میں)
دین میں اعتدال کی تعریف
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
- دینِ اسلام میں اعتدال سے مراد یہ ہے کہ انسان نہ تو اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حدود سے تجاوز کرے اور نہ ہی ان میں کوتاہی کا شکار ہو۔
- ایک معتدل انسان وہی ہے جو نہ تو دین میں غلو کرتا ہے اور نہ ہی سستی و لاپرواہی کا مظاہرہ کرتا ہے۔
سیرتِ طیبہ: اعتدال کی بہترین مثال
- دین میں اعتدال کا راستہ یہی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کو مضبوطی سے تھام لیا جائے۔
- غلو یہ ہے کہ آپ ﷺ کی سیرت سے آگے بڑھا جائے۔
- کوتاہی یہ ہے کہ آپ ﷺ کی سیرتِ مبارکہ تک پہنچنے کی کوشش ہی نہ کی جائے۔
غلو کی مثال: غیر معتدل عبادت کا جذبہ
مثال کے طور پر اگر کوئی شخص کہے کہ:
’’میں رات بھر نماز پڑھنے کا ارادہ رکھتا ہوں اور ساری زندگی کبھی سونا نہیں چاہتا کیونکہ نماز سب سے افضل عبادت ہے۔‘‘
تو یہ رویہ غلو پر مبنی ہے اور اسلامی مزاج کے خلاف ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی ایسے لوگوں کا واقعہ پیش آیا:
- ایک نے کہا: ’’میں ساری رات عبادت کروں گا۔‘‘
- دوسرے نے کہا: ’’میں ہمیشہ روزے رکھوں گا۔‘‘
- تیسرے نے کہا: ’’میں عورتوں سے نکاح نہیں کروں گا۔‘‘
جب یہ بات رسول اللہ ﷺ تک پہنچی تو آپ ﷺ نے فرمایا:
«مَا بَالُ اَقْوَامٍ يقولون کَذَا وَکَذَا؟ أناَاَصُومُ وَاُفْطِرُ، وأقوم وأنام، وَاَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَيْسَ مِنِّیْ»
(صحیح بخاری، کتاب الأدب، باب من لم يواجه الناس بالعتاب، حدیث: 6101)
(صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب استحباب النکاح…، حدیث: 1401)
"کیا ہوگیا ان لوگوں کو جو ایسی ایسی باتیں کہتے ہیں؟ میں روزہ رکھتا بھی ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں، نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں۔ جس نے میری سنت سے منہ موڑا، وہ مجھ سے نہیں۔”
ایک اور روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
((أَنْتُمُ الَّذِينَ قُلْتُمْ كَذَا وَكَذَا، أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَخْشَاكُمْ لِلَّهِ وَأَتْقَاكُمْ لَهُ، لَكِنِّي أَصُومُ وَأُفْطِرُ، وَأُصَلِّي وَأَرْقُدُ، وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي))
(صحیح بخاری، کتاب النکاح، باب الترغیب فی النکاح، حدیث: 5063)
ان لوگوں نے دین میں غلو کیا، اس پر رسول اللہ ﷺ نے براءت کا اظہار فرمایا، کیونکہ انہوں نے سنت کو چھوڑا تھا۔
کوتاہی کی مثال: فرض عبادات پر اکتفا
وہ شخص جو کہتا ہے:
’’مجھے نفل عبادات کی ضرورت نہیں، میں صرف فرض عبادات ہی ادا کروں گا۔‘‘
ایسا شخص کبھی کبھار فرائض میں بھی کوتاہی کا شکار ہوجاتا ہے۔
دین میں اعتدال یہ ہے کہ انسان:
- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور
- خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے طریقے کو اپنائے۔
اعتدال کی دوسری مثال: فاسق شخص سے برتاؤ
ایک فاسق آدمی تین افراد کے سامنے آتا ہے:
- پہلا شخص: سلام نہیں کرتا، قطع تعلق کرتا ہے، بات چیت بھی نہیں کرتا — یہ غلو ہے۔
- دوسرا شخص: خندہ پیشانی سے ملتا ہے، دعوت کرتا ہے — یہ تفریط ہے۔
- تیسرا شخص: فسق کی وجہ سے ناپسند، ایمان کی وجہ سے پسند کرتا ہے۔ اگر اس سے دوری اصلاح کا ذریعہ ہو تو الگ ہوجاتا ہے، ورنہ تعلق رکھتا ہے — یہ اعتدال ہے۔
اعتدال کی تیسری مثال: بیوی کے ساتھ رویہ
- پہلا شخص: بیوی کے ہر حکم پر چلنے والا، اصلاح کا جذبہ نہیں رکھتا — غلو۔
- دوسرا شخص: بیوی کو حقیر جانتا ہے، تکبر کا رویہ — کوتاہی۔
- تیسرا شخص: وہی برتاؤ کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا — اعتدال۔
﴿وَلَهُنَّ مِثلُ الَّذى عَلَيهِنَّ بِالمَعروفِ﴾ ﴿٢٢٨﴾… سورة البقرة
’’اور عورتوں کا حق (مردوں پر) ویسا ہی ہے جیسے دستور کے مطابق مردوں کا حق عورتوں پر ہے۔‘‘
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
«لَا يَفْرَکْ مُؤْمِنٌ مُّؤْمِنَةً اِنْ کَرِهَ مِنْهَا خُلْقًا رَضِیَ مِنْهَا آخَرَ»
(صحیح مسلم، کتاب الرضاع، باب الوصية بالنساء، حدیث: 1467)
’’کوئی مومن اپنی مومن بیوی سے بغض نہ رکھے، اگر ایک عادت ناپسند ہو تو کوئی دوسری عادت پسندیدہ بھی ہو سکتی ہے۔‘‘
نتیجہ
- دین اسلام میں ہر عمل اور رویہ کے لیے اعتدال ضروری ہے۔
- چاہے عبادات ہوں یا معاملات، غلو اور تفریط دونوں مذموم ہیں۔
- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کا راستہ ہی معتدل راستہ ہے، اور اسی پر عمل کرنے والا شخص حق پر ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب