فرقۂ ناجیہ کی نمایاں خصوصیات اور اس سے خارج ہونے کے اسباب
سوال:
اسوۂ نبوی سے مکمل وابستگی فرقۂ ناجیہ کی شناخت ہے۔
فرقہ ناجیہ کی نمایاں خصوصیات کیا ہیں اور کیا ان خصوصیات میں کمی سے انسان فرقہ ناجیہ سے خارج ہو جاتا ہے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
فرقۂ ناجیہ کی نمایاں خصوصیات
فرقۂ ناجیہ کی شناخت ان کے عقائد، عبادات، اخلاق اور معاملات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل پیروی سے ہوتی ہے۔ یہ پیروی ان چاروں شعبوں میں انہیں دیگر لوگوں سے ممتاز بناتی ہے:
➊ عقائد میں پیروی
◈ فرقہ ناجیہ کے افراد توحید خالص پر قائم ہیں۔
◈ اللہ تعالیٰ کی الوہیت، ربوبیت، اور اسماء و صفات سے متعلق ان کا عقیدہ وہی ہے جو کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔
➋ عبادات میں اتباع
◈ عبادات کی ہر قسم، صفت، مقدار، وقت، مقام اور اسباب وغیرہ میں ان کی مکمل وابستگی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے ہے۔
◈ دین میں بدعت کو شامل نہیں کرتے۔
◈ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام سے تجاوز نہیں کرتے۔
◈ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کامل ادب کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
➌ اخلاق میں برتری
◈ مسلمانوں سے ہمدردی و خیرخواہی، انبساط قلب، خندہ پیشانی، نرمی، شیریں کلامی، سخاوت، شجاعت، اور دیگر مکارم اخلاق میں ممتاز مقام رکھتے ہیں۔
➍ معاملات میں راست بازی
◈ معاملات میں دیانت داری اختیار کرتے ہیں۔
◈ خریدو فروخت میں سچائی اور وضاحت کے اصول اپناتے ہیں، جیسا کہ حدیث میں ہے:
((اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا، فَاِنْ صَدَقَا وَبَیَّنَا بُورِکَ لَہُمَا فِی بَیْعِہِمَا، وَاِنْ کَذَبَا وَکَتَمَا مُحِقَتْ بَرَکَۃُ بَیْعِہِمَا))
صحیح البخاری، البیوع، باب اذا بین البیعان ولم یکتما ونصحا، ح:۲۰۷۹
صحیح مسلم، البیوع، باب الصدق فی البیع والبیان، ح:۱۵۳۲
کیا ان خصوصیات میں کمی فرقہ ناجیہ سے خارج کرتی ہے؟
عمومی جواب:
ان خصوصیات میں کمی انسان کو فرقہ ناجیہ سے خارج نہیں کرتی، البتہ انسان کے درجات اس کے اعمال کے مطابق ہوتے ہیں۔
تفصیلی وضاحت:
➊ عقائد میں کمی:
◈ توحید اور اخلاص میں کوتاہی یا بدعت کا ارتکاب بعض اوقات انسان کو فرقہ ناجیہ سے خارج کر سکتا ہے۔
➋ عبادات میں کوتاہی:
◈ اگر بدعت شامل کی جائے یا شریعت کے اصولوں سے انحراف ہو تو فرقہ ناجیہ سے باہر نکلنے کا خطرہ ہوتا ہے۔
➌ اخلاق و معاملات میں کمی:
◈ اس سے انسان فرقہ ناجیہ سے خارج نہیں ہوتا، لیکن مرتبے میں کمی ضرور آتی ہے۔
اخلاقی اجتماعیت اور دین کا قیام
اسلام کی تعلیم اجتماعی اخلاقیات کو بھی شامل کرتی ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿شَرَعَ لَكُم مِنَ الدّينِ ما وَصّى بِهِ نوحًا وَالَّذى أَوحَينا إِلَيكَ وَما وَصَّينا بِهِ إِبرهيمَ وَموسى وَعيسى أَن أَقيمُوا الدّينَ وَلا تَتَفَرَّقوا فيهِ﴾
سورة الشورى: 13
’’اس نے تمہارے دین کا وہی راستہ مقرر کیا جس کے اختیار کرنے کا نوح کو حکم دیا تھا اور جس کی (اے محمد!) ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی ہے اور جس کا ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو حکم دیا تھا (وہ یہ) کہ دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے امت کو تفرقہ بازی سے بچنے کی تلقین کی ہے، اور فرمایا:
﴿إِنَّ الَّذينَ فَرَّقوا دينَهُم وَكانوا شِيَعًا لَستَ مِنهُم فى شَىءٍ﴾
سورة الأنعام: 159
’’جن لوگوں نے اپنے دین میں (بہت سے) رستے نکالے اور کئی کئی فرقے ہوگئے ان سے تم کو کچھ کام نہیں۔‘‘
اجتہادی اختلاف اور فرقہ ناجیہ کا اتحاد
◈ فرقہ ناجیہ کا ایک اہم وصف اتفاق و اتحاد اور دلوں کی الفت ہے۔
◈ اجتہادی اختلاف کی بنیاد پر کینہ، بغض، یا نفرت نہیں رکھتے۔
◈ ایک دوسرے کو اپنا بھائی تصور کرتے ہیں، حتیٰ کہ اجتہادی مسائل میں اختلاف کے باوجود بھی وہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھ لیتے ہیں۔
مثال:
◈ اگر کوئی مقتدی اس امام کے پیچھے نماز ادا کرتا ہے جس نے اونٹ کا گوشت کھایا ہو اور اس کے نزدیک یہ وضو کو نہیں توڑتا، جبکہ مقتدی کے نزدیک توڑتا ہے، تب بھی اس کی نماز درست ہوگی — کیوں کہ یہ اجتہادی مسئلہ ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تعامل باہمی اختلاف پر
◈ غزوۂ احزاب کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو فرمایا:
((لَا یُصَلِّیَنَّ اَحَدٌ الْعَصْرَ اِلاَّ فِی بَنِی قُرَیْظَۃَ))
صحیح البخاری، کتاب الخوف، باب صلاۃ الطالب والمطلوب، ح: ۹۴۶
صحیح مسلم، الجہاد والسیر، باب المبادرۃ بالغزو، ح: ۱۷۷۰
◈ بعض صحابہ نے عصر کی نماز راستے میں پڑھی، بعض نے بنو قریظہ پہنچ کر۔
◈ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی پر ناراضی ظاہر نہ کی — دونوں کو درست سمجھا۔
فرقہ پرستی کی مذمت اور اتحاد کا پیغام
◈ اجتہادی اختلاف کو بنیاد بنا کر فرقے بنانا، اور ایک دوسرے پر طعن و تشنیع کرنا درست نہیں۔
◈ ہمیں ایک امت بن کر کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستہ رہنا چاہیے۔
◈ دشمنانِ اسلام کی خواہش ہے کہ مسلمان انتشار میں مبتلا ہوں۔
◈ ہمارے لیے لازم ہے کہ ہم فرقہ ناجیہ کی اس امتیازی صفت کو اپنائیں کہ ہم ایک کلمہ پر متحد ہو جائیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب