فرض نماز کے بعد ماتھے پر ہاتھ رکھنے کا حکم
(تحقیقی جائزہ قرآن و سنت کی روشنی میں)
❖ سوال:
بعض لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ فرض نماز سے سلام پھیرنے کے بعد فوراً اپنے ماتھے پر دایاں ہاتھ رکھ لیتے ہیں یا اسے پکڑ لیتے ہیں اور کوئی دعا پڑھتے رہتے ہیں۔ کیا اس عمل کی کوئی دلیل قرآن و سنت میں موجود ہے؟ تحقیق سے جواب درکار ہے۔
(سائل: اسداللہ خیر باڑہ، غازی ہزارہ)
❖ الجواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
❖ متعلقہ روایت کا بیان:
سلام الطویل المدائنی عن زید العمی عن معاویہ بن قرہ عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی سند سے روایت ہے:
"كان رسول الله صلي الله عليه وسلم اذا قضي صلاته مسح بيده اليمني ثم قال : (( اشهد ان لااله الا الله الرحمن الرحيم، اللهم اذهب عني الهم والحزن ))”
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ جب نماز مکمل کرتے تو اپنی پیشانی کو دائیں ہاتھ سے چھوتے اور فرماتے: "میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ رحمٰن اور رحیم ہے، اے اللہ! غم اور مصیبت کو مجھ سے دور فرما۔”
(عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی، واللفظ لہ، الطبرانی فی الأوسط 3/243، دوسرا نسخہ: 2499، کتاب الدعاء للطبرانی 2/1092، ح659، الأمالي لابن سمعون: ح121، نتائج الأفکار لابن حجر 2/301، حلیۃ الأولیاء لأبی نعیم الأصبہانی 6/301-302)
❖ سند کا تحقیقی جائزہ:
● سلام الطویل المدائنی:
- حدیث کی سند میں "سلام الطویل المدائنی” راوی سخت ضعیف ہے۔
- امام بخاریؒ فرماتے ہیں: "ترکوه” (کتاب الضعفاء، تحفۃ الأقویاء، ص51، ت:155)
- حاکم نیشاپوریؒ: "اس نے موضوع احادیث بیان کی ہیں۔” (المدخل الی الصحیح، ص144، ت:73)
- حافظ ہیثمیؒ: "وقد أجمعوا علی ضعفه” (مجمع الزوائد 1/212)
- حافظ ابن حجرؒ: "والحديث ضعيف جدا بسببه” (نتائج الأفکار 2/301)
● زید العمی:
- راوی ضعیف ہے۔ (تقریب التہذیب:2131)
- جمہور محدثین نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ (مجمع الزوائد 10/110/260)
- حافظ ہیثمی: "بقية رجال أحد اسنادي الطبراني ثقات وفي بعضهم خلاف” (مجمع الزوائد 10/110)
● طبرانی کی دوسری سند:
- غالباً یہ "حدثنا الحارث بن الخضر العطار، ثنا عثمان بن فرقد عن زيد العمي…” والی سند ہے۔ (کشف الاستار 4/22، ح3100)
- "الحارث بن الخضر العطار” کے حالات نامعلوم ہیں۔
- یہ بھی ممکن ہے کہ اس نے "سلام الطویل المدائنی” کا واسطہ حذف کیا ہو۔
- راوی مجہول ہونے کی وجہ سے سند مردود ہے۔
❖ دوسری روایت:
کثیر بن سلیم عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی سند سے روایت ہے:
"كان رسول الله صلي الله عليه وسلم اذا قضي صلاته مسح جبهته بيمينه ثم يقول ((باسم الله الذي لااله غيره، اللهم اذهب عني الهم والحزن – ثلاث مرات))”
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ جب نماز مکمل کرتے تو دائیں ہاتھ سے اپنی پیشانی پر مسح کرتے اور تین بار فرماتے: "اللہ کے نام سے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، اے اللہ! غم اور مصیبت کو مجھ سے دور کر دے۔”
(الکامل لابن عدی 7/199، الأوسط للطبرانی 4/126، ح3202، کتاب الدعاء للطبرانی 2/1095، ح658، الأمالی للشجری 1/249، تاریخ بغداد 12/480، نتائج الأفکار 2/301-302)
❖ کثیر بن سلیم کا حکم:
- امام بخاریؒ: "منكر الحديث” (کتاب الضعفاء، تحفۃ الأقویاء: 316)
- امام نسائیؒ: "متروك الحديث” (الضعفاء والمترکین: 506)
- متروک راوی کی روایت شواہد و متابعت میں بھی قبول نہیں۔ (اختصار علوم الحدیث لابن کثیر، ص38)
❖ خلاصۂ تحقیق:
- مذکورہ روایت اپنی تمام اسناد کے ساتھ سخت ضعیف ہے۔
- شیخ البانیؒ: اسے "ضعیف جدا” قرار دیتے ہیں۔ (السلسلۃ الضعیفہ 2/114، ح660)
- امام سیوطیؒ نے بھی روایت کو ضعیف کہا ہے۔ (الجامع الصغیر: 6741)
❖ اہم تنبیہ:
- بعض حضرات (جیسے محمد ارشاد قاسمی دیوبندی) نے "بسند ضعیف” لکھ کر روایت کو نقل کیا لیکن روایت پر جرح والی عربی عبارت کا ترجمہ نہیں کیا۔
- دیوبندی و بریلوی حضرات عوام کے سامنے ضعیف و مردود روایات پیش کر کے دھوکہ دے رہے ہیں۔
- کیا یہ اللہ کی پکڑ سے بے خوف ہیں؟
❖ نتیجہ:
نماز کے بعد ماتھے پر ہاتھ رکھ کر دعا کرنے کا کوئی ثبوت قرآن، سنت، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا تابعین رحمہم اللہ سے نہیں ملتا۔
لہٰذا اس عمل سے مکمل اجتناب لازم ہے۔
وما علینا إلا البلاغ
(19/صفر/1426ھ)
(الحدیث)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب