تعلیم، قرآن، اذان اور امامت پر اجرت لینے کا حکم
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شیخ الحدیث مبارکپوری کا مؤقف
◈ ذاتی رجحان:
شیخ الحدیث مبارکپوری رحمہ اللہ نے واضح فرمایا کہ ان کا ذاتی رجحان یہ ہے کہ تعلیم دینا، قرآن پڑھانا، اذان دینا اور امامت جیسے دینی امور پر اجرت لینا پسندیدہ نہیں۔ اگرچہ وہ اس عمل کو حرام نہیں قرار دیتے، لیکن ان کی طبیعت اسے علم فروشی سمجھ کر ناپسند کرتی ہے۔
اجرت کو حرام نہ کہنے کی وجہ
◈ قرآنی تعلیم پر اجرت کی دلیل:
حضرت نے
"اِنَّ أَحَقَّ مَا أَخَذْتُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا كِتَابُ اللَّهِ”
کو دلیل بنایا کہ قرآنِ کریم سکھانے پر اجرت لینا جائز ہے۔
◈ اس حدیث کا عموم قرآن کی تعلیم، امامت، اذان وغیرہ پر اجرت کے جواز کو شامل کرتا ہے۔
◈ یہ حدیث اُن احادیث و آثار پر اصح اور اقویٰ ہے جن میں کراہت کا پہلو موجود ہے۔
عبادات کا مباح درجہ میں آنا
◈ عبادات کی کیفیت اور قیود:
اگرچہ تعلیم قرآن، امامت، اذان، اور تراویح بذات خود عبادتیں ہیں، مگر:
➤ جب ان عبادات کو مخصوص وقت، جگہ، مسجد یا قوم سے مقید کر دیا جائے تو ان کی حیثیت مباح درجے میں آ جاتی ہے۔
➤ ایسی قیود اور شرائط کی موجودگی میں ان کے بدلے میں اجرت لینے کا جواز پیدا ہو جاتا ہے۔
مزید وضاحت اور تفصیل
◈ اس مسئلے کی مکمل وضاحت "فتاویٰ نذیریہ” جلد 2، صفحات 48 اور 58 پر موجود ہے۔
◈ مزید براہ راست حوالہ: "مکاتیب شیخ رحمانی بنام مولانا امین اثری” صفحہ 50
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب