سوال
ماہنامہ "محدث” نومبر 1999ء (شعبان 1420ھ، جلد 31، عدد 11، صفحہ 61 تا 63) میں شائع شدہ ایک مضمون کے حوالے سے ایک سائل نے مسئلہ دریافت کیا ہے۔ مضمون شیخ حافظ ثناء اللہ المدنی حفظہ اللہ کا ہے۔ اس میں ذکر کیا گیا ہے کہ:
شیخ مدنی نے شیخ علامہ البانی رحمہ اللہ سے یہ سوال کیا کہ نماز کے دوران جوتے سامنے رکھنا کیسا ہے؟
علامہ البانیؒ نے اسے جائز قرار دیا۔
اس پر شیخ مدنی نے "المعجم الصغیر” للطبرانی، ص 165، مطبع انصاری دہلی سے ایک حدیث پیش کی۔
علامہ البانیؒ نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا۔
بعد ازاں، شیخ مدنی نے علامہ البانیؒ کا تبصرہ "الشیخ عبداللہ روپڑی رحمہ اللہ” کو بھیجا۔
شیخ عبداللہ روپڑیؒ نے تفصیلی جواب تحریر فرمایا، مگر تاحال کوئی جواب موصول نہ ہو سکا۔
سائل لکھتا ہے کہ اس مسئلے پر اس کی جامعۃ الدراسات کے ایک استاد سے بھی گفتگو ہوئی، جنہوں نے شیخ مدنی کی حمایت کی۔
اب سائل یہ جاننا چاہتا ہے کہ اس مسئلے میں حق بات کیا ہے؟ دلائل کے ساتھ وضاحت فرمائی جائے۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سائل کی مراد شاید طبرانی کی وہ حدیث ہے، جس کا متن درج ذیل ہے:
"اذا خلع احدكم نعليه في الصلوة فلا يجعلهما بين يديه فياتم بهما۔”
اگر تم میں سے کوئی نماز میں جوتے اتارے تو اپنے سامنے نہ رکھے ۔ پس ان کے ساتھ اقتدا کرے
(المعجم الصغیر، ج 2، ص 13-14، حدیث 818، بتر قیمی)
علامہ البانی رحمہ اللہ کا موقف:
علامہ البانیؒ نے اس حدیث کو "ضعیف جدا” قرار دیا ہے۔
(السلسلۃ الضعیفۃ، ج 2، ص 415، حدیث 982)
حدیث کی اسناد کا تجزیہ:
اس حدیث کی سند میں دو راویوں پر شدید جرح ہے:
◈ زیاد بن ابی زیاد الجصاص
◈ ابو سعید المسیب بن شریک الشقری
یہ دونوں راوی سخت مجروح اور متروک الحدیث ہیں۔
لہٰذا:
علامہ البانیؒ کی تحقیق کہ حدیث "ضعیف جدا” ہے، بالکل صحیح ہے۔
(بحوالہ: شہادت، مارچ 2003ء)
نتیجہ:
علامہ البانی رحمہ اللہ کی تحقیق کی روشنی میں:
◈ نماز کے دوران جوتے سامنے رکھنا ممنوع نہیں ہے۔
◈ مذکورہ حدیث اس ممانعت پر قابلِ اعتماد دلیل نہیں بن سکتی، کیونکہ وہ حد درجہ ضعیف ہے۔
خلاصہ:
حدیث ضعیف ہونے کی وجہ سے اس پر عمل لازم نہیں۔
◈ جوتے سامنے رکھ کر نماز پڑھنا جائز ہے، بشرطیکہ کسی کو اذیت نہ ہو اور جگہ پاک ہو۔
ھذا ما عندی واللہ أعلم بالصواب