نماز میں مرد و عورت کا فرق؟ 12 روایات کا علمی جائزہ
ماخوذ : فتاویٰ علمیہ، جلد1، کتاب الصلوٰۃ، صفحہ 396

مقدمہ

الحمد للہ، والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ، أما بعد!
دیوبندی مکتبِ فکر کی کتاب "حدیث اور اہل حدیث” میں مرد اور عورت کی نماز کو مختلف قرار دینے کے لیے بارہ روایات ذکر کی گئی ہیں۔ اس جواب میں ان بارہ روایات کا ترتیب وار تحقیقی و علمی تبصرہ پیش کیا جا رہا ہے، تاکہ حقیقت واضح ہو اور امت کو فکری دھوکہ دہی سے بچایا جا سکے۔

روایت 1:

روایت:
عن وائل بن حجر (المعجم الکبیر للطبرانی، ج22، ص18)

ضعف کی وجہ:

راویہ "ام یحییٰ بنت عبدالجبار” کے متعلق حافظ ہیثمیؒ کا قول ہے:
"ولم اعرفها”
اور میں نے اسے نہیں پہچانا ۔
(مجمع الزوائد، ج2، ص103 و ج9، ص374)

ماسٹر امین اوکاڑوی دیوبندی: "ام یحییٰ مجہولہ ہیں”
(مجموعہ رسائل، ج1، ص342، طبع اول)

اصول حدیث کے مطابق مجہول راوی کی روایت ضعیف ہوتی ہے۔

روایت 2:

روایت:
عن عبدربہ بن سلیمان بن عمیر… (جزء رفع یدین للبخاری، ص7)

جواب:

اس روایت میں رفع یدین کندھوں کے برابر کرنا ذکر ہے، جو سنت سے مرد و عورت دونوں کے لیے ثابت ہے۔

اس روایت میں رکوع سے پہلے اور بعد کا رفع یدین بھی مذکور ہے (حدیث: 25)

صحیح بخاری سے ثابت ہے کہ ام درداءؓ مردوں کی طرح بیٹھتی تھیں اور وہ فقیہہ تھیں:

"كانت أم الدرداء تجلس في صلاتها جلسة الرجل وكانت فقيهة”
اس روایت سے معلوم ہوا کہ جو لوگ نماز پڑھنے میں مرد اور عورت کی نماز میں فرق کرتے ہیں وہ فقیہ نہیں ہیں ۔
(صحیح بخاری، کتاب الصلوۃ، باب ستہ، قبل حدیث 827، التاریخ الصغیر للبخاری، ج1، ص223، تغلیق التعلیق لابن حجر، ج2، ص329)

نتیجہ:
نماز میں فرق کا قائل فقیہ نہیں ہو سکتا۔

روایت 3:

روایت:
قول عطاء بن ابی رباح (مصنف ابن ابی شیبہ، ج1، ص239)

وضاحت:

یہ حدیث نہیں بلکہ تابعی کا قول ہے۔

عطاءؒ فرماتے ہیں:
"وإن تركت ذلك فلا حرج” یعنی عورت مردوں کی طرح رفع یدین کرے تو بھی کوئی حرج نہیں۔

مصنف نے یہ قول دانستہ چھپا لیا، جو خیانت ہے۔

روایت 4:

روایت:
عن یزید بن ابی حبیب۔۔۔ (مراسیل ابی داود، السنن الکبریٰ للبیہقی، ج2، ص223)

ضعف کی وجہ:

امام بیہقیؒ: "حدیث منقطع”
امام طحاویؒ:
حديثا مقطعا لا يثبته اهل الخبر لانهم لايحبتون بالمنقطع
تمام اہل خبر اہل حدیث منقطع حدیث کو حجت نہیں سمجھتے تھے ،
(شرح معانی الآثار، ج1، ص175 / 1/104)

امام ابو حنیفہؒ اور ابو یوسفؒ کے نزدیک بھی یہ روایت حجت نہیں۔

روایت 5:

روایت:
عن ابن عمرؓ مرفوعاً… (کنز العمال، ج7، ص549، حدیث: 20202)

ضعف کی وجہ:

یہ روایت ابو مطیع الحکم بن عبداللہ الیلی کی سند سے ہے، جو جہمی اور متروک راوی ہے۔

ابو حاتم رازیؒ کا قول:
"كان مرجئاً كذاباً”
يعنی وہ مرجئی اور (نیک ہونے کے باوجود )جھوٹا تھا۔
(لسان المیزان، ج2، ص408)

روایت 6:

روایت:
عن أبی اسحاق عن الحارث عن علیؓ…
(مصنف ابن ابی شیبہ، ج1، ص279، السنن الکبریٰ للبیہقی، ج2، ص222)

ضعف کی وجہ:

الحارث الاعور ضعیف اور رافضی تھا۔

بعض علماء نے کذاب بھی قرار دیا۔

ابو اسحاق مدلس ہیں اور "عن” سے روایت کر رہے ہیں۔

روایت 7:

روایت:
عن بکیر عن ابن عباسؓ…

ضعف کی وجہ:

بکیر کا ابن عباسؓ سے سماع ثابت نہیں۔

سند منقطع ہے۔

روایت 8:

روایت:
عن ابراہیم… (مصنف ابن ابی شیبہ، ج1، ص270، بیہقی، ج2، ص222)

ضعف کی وجہ:

راوی مغیرہ بن مقسم مدلس ہے اور "عن” سے روایت کر رہا ہے۔

"آثار السنن” حدیث 353، حاشیہ 125، ص97:
” قلت عنعنة المدلس كايحتج بها لمظنة التدليس "
یعنی میں ( نیموی ) کہتا ہوں کہ مدلس کے عن سے حجت نہیں پکڑی جاسکتی کونکہ تدلیس کا گمان ہے ۔

روایت 9:

روایت:
عن مجاہد… (مصنف ابن ابی شیبہ، ج1، ص270)

ضعف کی وجہ:

راوی لیث بن ابی سلیم ضعیف اور مدلس تھا۔

حافظ ابن حجرؒ: لیث اختلاط کی وجہ سے متروک ہوا۔

نیموی صاحب نے اس کی روایت کو غلط طور پر "اسنادہ صحیح” لکھا۔

روایت 10:

روایت:
عن ابن عمرؓ… (جامع المسانید، ج1، ص400)

ضعف کی وجہ:

بنیادی راوی ابو محمد الحارثی (عبداللہ بن محمد بن یعقوب) کذاب ہے۔

دیگر راوی جیسے قبیصہ، زکریا، عبداللہ، زر بن نجیح مجہول ہیں۔

روایت موضوع ہے۔

روایت 11:

روایت:
((التسبيح للرجال والتصفيق للنساء))
تسبیح مردوں کے لیے ہے اور تصبیق ( ایک ہاتھ کی پشت پر دوسرے ہاتھ کی پشت مارنا) عورتوں کے لیے ۔
(صحیح بخاری، ج1، ص160، ح1203، صحیح مسلم، ج1، ص180، ح422، ترمذی، ج1، ص85، ح369)

وضاحت:

یہ حدیث بالکل صحیح ہے۔

مگر تسبیح و تصفیق کے فرق سے نماز کے طریقے میں فرق ثابت نہیں ہوتا۔

روایت 12:

روایت:
((لا تُقبل صَلاة الحائض إلا بخمار))
یعنی بالغہ عورت کی نمازاوڑھنی کے بغیر قبول نہیں ہوتی
(ترمذی، ج1، ص86، ح377، ابوداؤد، ج1، ص94، ح641)

وضاحت:

حدیث صحیح ہے اور عورت کے لیے اوڑھنی کا حکم ثابت کرتی ہے۔

لیکن پردے کے فرق سے نماز کا طریقہ مختلف ہونا ثابت نہیں ہوتا۔

جامع نتیجہ

رسول اللہ ﷺ تمام انسانوں (مرد و عورت) کے لیے معلم و نمونہ بن کر آئے۔

نماز کے طریقے میں مرد و عورت کے درمیان کسی حدیث سے فرق ثابت نہیں۔

دوپٹے اور تصفیق کے مسائل الگ اور ضمنی ہیں، جنہیں بنیاد بنا کر نماز کے مکمل طریقے میں فرق پیدا کرنا بددیانتی ہے۔

آخری بات

"حدیث اور اہل حدیث” جیسی کتابیں عوام کو کتاب و سنت سے ہٹانے کی ناکام کوششیں ہیں۔ اس موضوع پر مزید تحقیق کے لیے میری کتاب "علمی مقالات” (جلد اول) کا مطالعہ کریں، جو ان شاء اللہ تشفی بخش ثابت ہو گی۔

ھذا ما عندی واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1