تقلید کا رد آثار صحابہ سے رضي الله عنهم اجمعین:
تقلید کے بارے میں سوالات اور ان کے جوابات
آخر میں تقلید اور اہل تقلید کے بارے میں بعض الناس کے سوالات اور ان کے جوابات پیش خدمت ہیں:
سوال (1):
تقلید کسے کہتے ہیں؟
جواب: لغت اور اصول فقہ کی رو سے آنکھیں بند کر کے، بغیر سوچے سمجھے، کسی امتی کی بے دلیل بات ماننے کو تقلید کہتے ہیں۔ جدید مقلدین کے طرز عمل کی رو سے ”کتاب و سنت کے مخالف و منافی قول ماننے کو تقلید کہتے ہیں۔“ مقلدین قرآن و حدیث کو حجت نہیں سمجھتے بلکہ ان کے نزدیک صرف قول امام ہی حجت ہوتا ہے۔ دار الافتاء والارشاد ناظم آباد کراچی کے مفتی محمد (دیوبندی) لکھتے ہیں: ”مقلد کے لیے اپنے امام کا قول ہی سب سے بڑی دلیل ہے۔“
(ضرب مومن جلد 3 شماره 15 ص 6 مطبوعہ 9 تا 15 اپریل 1999ء)
سوال (2):
کیا حدیث ماننے کو تقلید کہتے ہیں؟
جواب: حدیث ماننے کو تقلید نہیں کہتے بلکہ اتباع کہتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ماننا آپ کی طرف رجوع ہے۔ متعدد فقہاء نے لکھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف رجوع تقلید نہیں ہے۔
( دیکھیے ص 8-12 وغیرہ۔ )
سوال (3):
کیا صحاح ستہ (بخاری، مسلم، ترمذی، ابوداؤد، نسائی و ابن ماجہ کی کتابیں) ماننا اور ان پر عمل کرنا تقلید ہے؟
جواب: جی ہاں، یہ تقلید نہیں ہے بلکہ اتباع ہے۔ اتباع کی دو قسمیں ہیں:
اول: اتباع بالدلیل
دوم: اتباع بلا دلیل، اسے تقلید کہتے ہیں۔
شریعت اسلامیہ میں اتباع بالدلیل مطلوب ہے اور بلا دلیل ممنوع ہے۔ صحاح ستہ و دیگر کتب احادیث کی احادیث پر ایمان و عمل اتباع بالدلیل ہے۔
سوال (4):
کیا عالم سے مسئلہ پوچھنا تقلید ہے؟
جواب: جی ہاں، عالم سے مسئلہ پوچھنا تقلید نہیں ہے۔ دیوبندی و بریلوی عوام اپنے علماء سے مسائل پوچھتے ہیں۔ مثلاً رشید احمد دیوبندی (ایک عام ان پڑھ شخص) اپنے عالم، مولوی مجیب الرحمن سے مسئلہ پوچھتا ہے۔ کیا دیوبندی علماء یہ کہیں گے کہ رشید احمد اب مجیب الرحمن کا مقلد بن کر محیی بن گیا ہے؟ جب حنفی شخص اپنے مولوی سے مسئلہ پوچھ کر حنفی ہی رہتا ہے تو اس کا مطلب واضح ہے کہ پوچھنا تقلید نہیں ہے۔
سوال (5):
کیا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حنفی یا شافعی ہونے کا حکم دیا ہے؟
جواب: ہرگز نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی اور اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔
(دیکھیے سورت العمران آیت : 32)
ملاعلی قاری حنفی (متوفی 1014ھ) فرماتے ہیں:
ومن المعلوم أن الله سبحانه ماكلف أحدا أن يكون حنفيا أو مالكيا أو شافعيا أو حنبليا بل كلفهم أن يعملوا بالكتاب والسنة إن كانوا علماء وأن يقلدوا العلماء إذا كانوا جهلاء
”یہ معلوم ہے کہ اللہ سبحانہ نے کسی کو حنفی یا مالکی یا شافعی یا حنبلی ہونے پر مجبور نہیں کیا بلکہ اس پر مجبور کیا ہے کہ اگر وہ عالم ہوں تو کتاب و سنت پر عمل کریں اور اگر جاہل ہوں تو علماء کی تقلید کریں۔“
(شرح عین العلم و زین الحلم ج 1 ص 446)
ملاعلی قاری کے اس اعتراف سے معلوم ہوا: اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو حنفی و شافعی بننے کا حکم نہیں دیا۔ کتاب و سنت کی اتباع کرنی چاہیے۔ جاہلوں کو چاہیے کہ علماء سے مسائل پوچھ کر ان پر عمل کریں۔
تنبیہ: ملاعلی قاری نے یہاں ”تقلید کریں“ کا لفظ غلط استعمال کیا ہے۔ مسائل پوچھنا اور ان پر عمل کرنا تقلید نہیں کہلاتا بلکہ اتباع و اقتداء کہلاتا ہے۔ لہذا صحیح الفاظ درج ذیل ہیں: وأن يتبعوا العلماء إذا كانوا جهلاء ”اور اگر جاہل ہوں تو علماء کی اتباع کریں۔“
سوال (6):
عالم سے مسئلہ کس طرح پوچھنا چاہیے؟
جواب: سب سے پہلے کتاب و سنت کا عالم تلاش کیا جائے، پھر اس کے پاس جا کر یا رابطہ کر کے ادب و احترام سے پوچھا جائے کہ اس مسئلے میں مجھے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم بتائیں، یا قرآن و حدیث سے جواب دیں یا دلیل سے جواب دیں۔
سوال (7):
کیا امت مسلمہ میں صرف چار ہی امام (امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد) گزرے ہیں، یا دوسرے امام بھی تھے؟
جواب: امت مسلمہ میں صرف چار امام ہی نہیں گزرے بلکہ ہزاروں امام گزرے ہیں مثلاً سعید بن المسیب، قاسم بن محمد، عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ، سالم بن عبد اللہ بن عمر، حسن بصری، سعید بن جبیر، اوزاعی، لیث بن سعد، بخاری، مسلم، ابن خزیمہ، ابن حبان، ابن الجارود وغیرہم رحمہم اللہ اجمعین۔
سوال (8):
ان چاروں اماموں سے پہلے لوگ کس کی تقلید کرتے تھے؟
جواب: ان چاروں اماموں سے پہلے لوگ کتاب و سنت پر عمل کرتے تھے، کسی قسم کی تقلید نہیں کرتے تھے۔
سوال (9):
کیا ان چاروں اماموں نے اپنی تقلید کا حکم دیا ہے؟
جواب: ان چاروں اماموں نے اپنی تقلید کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ کتاب و سنت پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے۔
سوال (10):
کیا ان چاروں اماموں نے اپنی تقلید سے لوگوں کو منع کیا ہے؟
جواب: جی ہاں، ان چاروں اماموں سے مروی ہے کہ انھوں نے تقلید سے لوگوں کو منع کیا ہے۔
سوال (11):
چاروں امام کس کے مقلد تھے؟
جواب: چاروں امام کسی کے بھی مقلد نہیں تھے وہ کتاب و سنت پر عمل کرتے تھے۔
سوال (12):
چاروں ائمہ کرام افضل ہیں یا خلفائے راشدین؟ جب ان چار ائمہ کی تقلید واجب ہے تو ان چار خلفائے راشدین کی تقلید کیوں واجب نہیں؟
جواب: چاروں خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم ان چاروں اماموں بلکہ ساری امت سے بالاتفاق افضل ہیں۔ نہ تو خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی تقلید واجب ہے اور نہ کسی اور کی، حدیث میں خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی سنت پر عمل کرنے اور ان کی اقتداء کا حکم دیا گیا ہے جو کہ اتباع بالدلیل ہے۔ چاروں اماموں کی تقلید واجب قرار دینا بالکل باطل اور مردود ہے۔
سوال (13):
کیا قرآن مجید کی سات قراءتیں اور فقہی چار مذاہب ایک ہی حیثیت رکھتے ہیں؟
جواب: قرآن مجید کی سات قراءتیں بطریقہ روایت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہیں جبکہ فقہی چار مذاہب کے اندر بہت سا حصہ ائمہ اور متبوعین ائمہ کی آراء، قیاسات و اجتہادات پر مشتمل ہے۔ رائے اور روایت میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ مثلاً ایک سچا آدمی ”الف“ ہے۔ وہ ”ب“ کے پاس جا کر اسے کہتا ہے کہ مجھے آپ کے والد صاحب نے کہا ہے کہ میرے بیٹے کو کہو فوراً گھر آجائے۔ یہ روایت ہے۔ ”ب“ اس کی روایت مان کر فوراً گھر چلا جاتا ہے تو ”ب“ نے اپنے والد کی اطاعت کی ہے۔ ”الف“ کی تو صرف روایت مانی ہے۔ یہی الف اپنے دوست ”ب“ سے کہتا ہے: آئیں بازار جا کر کچھ شاپنگ (خریداری) کرتے ہیں۔ یہ الف کی رائے ہے۔ اب اس کی مرضی ہے مانے یا نہ مانے۔ شریعت اسلامیہ میں کچے راوی کی روایت ماننے کا حکم ہے جبکہ ایک شخص کی رائے کا دوسرے شخص پر لازم نہیں ہے۔ حنفی حضرات، امام شافعی وغیرہ کی آراء و اجتہادات نہیں مانتے صرف اپنے مفتی بہاء اقوال ہی تسلیم کرنے کے دعویدار ہیں۔ صحیح السند قراءتوں میں سے کسی ایک قراءت کا انکار بھی کفر ہے جبکہ کسی غیر نبی کی صحیح السند رائے کا انکار نہ کفر ہے اور نہ گمراہی بلکہ جائز ہے۔ صحابہ و تابعین کے بہت سے ثابت شدہ فتاویٰ ایسے ہیں جنہیں حنفی حضرات نہیں مانتے۔
مثلاً:
1. سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جنازے میں ہر تکبیر پر رفع یدین کرتے تھے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ 3/296 ح 1380 واسندہ صحیح)
2. ابراہیم نخعی و سعید بن جبیر رحمہما اللہ دونوں، جرابوں پر مسح کرتے تھے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ 1/188 ح 1977، 1/189 ح 1989)
3. سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ انھوں نے عید کی نماز میں بارہ تکبیریں کہیں۔
(موطا امام مالک ح 435 ص 180)
4. طاؤس رحمہ اللہ تین وتر پڑھتے تھے تو ان کے درمیان قعدہ نہیں کرتے تھے یعنی صرف آخری رکعت میں ہی تشہد کے لیے بیٹھتے تھے۔
(مصنف عبدالرزاق 3/27 ح 4669 واسندہ صحیح)
اس طرح کی بے شمار مثالیں ہیں، اگر کسی ایک مجتہد کی کوئی رائے نہ ماننا ”لامذہبیت“ ہے تو دیوبندی و بریلوی حضرات یقیناً لامذہب ہیں کیونکہ یہ لوگ امام ابو حنیفہ اور فقہ حنفی کے علاوہ دوسرے مجتہدین کی آراء و فتاویٰ کو علانیہ رد کر دیتے ہیں، اور کہتے ہیں: ”لیکن سوائے امام اعظم کے اور کسی کے قول سے ہم پر حجت قائم کرنا بعید از عقل ہے۔“
(ایضاح الادلہ ص 276)
سوال (14):
کیا بخاری و مسلم کے راوی مقلد (تقلید کرنے والے) تھے؟
جواب: بخاری و مسلم کے اصول کے (یعنی بنیادی) راوی ثقہ و معتبر علماء میں سے تھے۔ عالم کا تقلید کرنا کتاب و سنت و اجماع و آثار سلف صالحین سے ثابت نہیں ہے۔ امام ابن حزم نے صحیح بخاری و صحیح مسلم کے بہت سے راویوں کے نام لکھے ہیں جو تقلید نہیں کرتے تھے۔
مثلاً: احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ، ابوعبید، ابو خیمہ، محمد بن یحیی الذہلی، ابوبکر بن ابی شیبہ، عثمان بن ابی شیبہ، سعید بن منصور، قتیبه، مسدد، الفضل بن دکین، محمد بن المثنی، ابن نمیر، محمد بن العلاء، سلیمان بن حرب، یحیی بن سعید القطان، عبد الرحمن بن مہدی، عبدالرزاق، وکیع، یحیی بن آدم، ابن المبارک، محمد بن جعفر، اسماعیل بن علیہ، عفان، ابو عاصم النبیل، لیث بن سعد، اوزاعی، سفیان ثوری، حماد بن زید، ہشیم، ابن ابی ذئب وغیرہم رحمہم اللہ اجمعین۔
(دیکھیے الرد علی من اخلد الی الارض للسیوطی ص 136، 137)
صحیح بخاری و صحیح مسلم و احادیث صحیحہ کے راویوں میں سے صرف ایک راوی کا بھی مقلد ہونا ثابت نہیں ہے۔
سوال (15):
اہل حدیث کسے کہتے ہیں؟
جواب: دو قسم کے لوگوں کو اہل حدیث کہتے ہیں:
1. محدثین کرام
2. حدیث کی اتباع کرنے والے لوگ (یعنی محدثین کرام کے عوام)
(دیکھیے مجموع فتاوی ابن تیمیہ ج 4 ص 95 )
محدثین کرام تقلید نہیں کرتے تھے۔
(مجموع فتاوی ابن تیمیہ ج 20 ص 40 والرد علی من اخلد الی الارض ص 136، 137۔)
علامہ سیوطی لکھتے ہیں:
ليس لأهل الحديث منقبة أشرف من ذلك لأنه لاإمام لهم غيره عليه الصلاة والسلام
”اہل حدیث کے لیے اس سے زیادہ کوئی فضیلت نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا ان کا کوئی (متبوع) امام نہیں ہے۔“
(تدریب الراوی 2/126 نوع: 27)
سوال (16):
آیت ﴿فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ﴾
(16-النحل:43، 21-الأنبیاء:7)
کا مفہوم و ترجمہ کیا ہے؟
جواب: ”اگر تمہیں علم نہیں تو اہل علم سے پوچھو۔ “
مفہوم: معلوم ہوا کہ لوگوں کی دو قسمیں ہیں:
1. اہل ذکر یعنی علماء
2. لا يعلمون یعنی عوام
عوام پر لازم ہے کہ علماء سے دو شرطوں پر مسائل پوچھیں:
1. قرآن و حدیث پر عمل کرنے والا عالم ہو، اہل تقلید میں سے نہ ہو۔
2. یہ پوچھا جائے کہ مجھے قرآن و حدیث سے مسئلہ بتائیں یا اللہ و رسول کا حکم بتا دیں۔
عامی کا عالم کی طرف رجوع کرنا تقلید نہیں ہے جیسا کہ (ص 98 )پر گزر چکا ہے۔ عرف عام میں بھی اسے تقلید نہیں سمجھا جاتا کیونکہ دیوبندیوں و بریلویوں کے عوام اپنے مولویوں سے مسائل پوچھتے اور ان پر عمل کرتے ہیں اور یہ کوئی بھی نہیں کہتا کہ وہ اپنے فلاں فلاں مولوی، جس سے مسئلہ پوچھا ہے، کے مقلد ہو گئے ہیں۔
سوال (17):
کیا استاد کے پاس پڑھنا تقلید ہے؟
جواب: استاد کے پاس پڑھنا تقلید نہیں ہے اور نہ اسے کسی نے تقلید کہا ہے۔ مثلاً غلام اللہ خان دیوبندی کے پاس پڑھنے والے شاگردوں کو کوئی دیوبندی بھی غلام اللہ خان کے مقلدین نہیں کہتا، بلکہ اپنا ہم عقیدہ دیوبندی یا حنفی کا حنفی ہی سمجھتا ہے۔
سوال (18):
آیت ﴿وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ﴾
(31-لقمان:15)
کا کیا ترجمہ و مفہوم ہے؟
جواب: اور اتباع کر اس کے راستے کی، جس نے میری طرف رجوع کیا ہے۔
مفہوم: اتباع کی دو قسمیں ہیں:
1. اتباع با دلیل
2. اتباع بے دلیل
یہاں اتباع با دلیل مراد ہے جو کہ تقلید نہیں ہے۔ یہ دعویٰ کرنا کہ لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو غیر نبی کی، بے دلیل، آنکھیں بند کر کے اندھا دھند تقلید کا حکم دیا ہے، انتہائی باطل اور جھوٹی بات ہے۔ امام ابن کثیر رحمہ اللہ (متوفی 774ھ) اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں: يعني المؤمنين ”یعنی تمام مومنین کے راستے کی اتباع کر“ (تفسیر ابن کثیر 5/106) لہذا معلوم ہوا کہ اس آیت سے اجماع کا حجت ہونا ثابت ہے۔ والحمد للہ
سوال (19):
آیت ﴿اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ﴾
(1-الفاتحہ:6-7)
کا ترجمہ و مفہوم کیا ہے؟
جواب: (اے اللہ) ہمیں صراط مستقیم کی طرف ہدایت دے، ان لوگوں کے راستے کی طرف جن پر تو نے انعام کیا ہے۔
مفہوم: یہاں پر تمام ربانی انعام یافتہ لوگوں کے راستے کا ذکر ہے، بعض انعام یافتہ کا نہیں، لہذا اس آیت کریمہ سے اجماع کا حجت ہونا ثابت ہوا۔ یہ عام لوگوں کو بھی معلوم ہے کہ ربانی انعام یافتہ (انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین) کا راستہ اللہ اور رسول کی اطاعت ہے، آنکھیں بند کر کے کسی غیر نبی کی بے دلیل و بے حجت پیروی نہیں، لہذا اس آیت سے بھی تقلید کا رد ہی ثابت ہے۔ والحمد للہ
سوال (20):
آیت يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا ﴿٥٩﴾
(4-النساء:59)
کا ترجمہ و مفہوم کیا ہے؟
جواب: اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اولوالامر کی (اطاعت کرو) پس اگر کسی چیز میں تمہارا تنازعہ ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لے جاؤ اگر تم اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہو، یہ بہتر اور اچھا طریقہ ہے۔
مفہوم: اس آیت میں اولی الامر سے مراد دو گروہ ہیں:
1. امراء (تمام امراء)
2. علماء (تمام علماء)
تمام علماء کی بادلیل اطاعت کا مطلب اجماع پر عمل ہے۔ لہذا اس سے تقلید ثابت نہ ہوئی، آیت کے دوسرے حصے سے صاف ظاہر ہے کہ تقلید حرام ہے کیونکہ تمام اختلافات و تنازعات میں کسی عالم یا فقیہ کی طرف رجوع کا حکم نہیں بلکہ صرف اللہ (قرآن) اور رسول (حدیث) کی طرف رجوع کا ہی حکم ہے۔
(ختم شد والحمد للہ 12 صفر 1426ھ)