بعض لوگ یہ بیان کرتے سنائی دیتے ہیں کہ سانحۂ حرہ (63ھ) کے دوران نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک سے اذان سنائی دیتی رہی۔ کسی بھی واقعے، حادثے یا سانحے کی صحت و سقم کا پتہ اس کی سند سے لگایا جا سکتا ہے۔ محدثین کرام رحمها اللہ پر اللہ تعالیٰ رحم فرمائے، انہوں نے قرآن و سنت کی روشنی میں سند کی پرکھ کے لیے مبنی برانصاف قوانین وضع کیے، پھر راویانِ اسانید کے کوائف بھی سپرد کتب کر دئیے۔ ذخیرۂ روایات کی جانچ کا یہ انداز اسلامی ورثے کا امتیازی پہلو ہے۔ دیگر مذاہب میں اس کی مثال نہیں ملتی۔
کتب ِ حدیث ہوں یا سیرت و تاریخ، اہل علم ان میں اپنی سندیں ذکر کر کے اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہو چکے ہیں، اب یہ بعد والوں پر ہے کہ وہ ان اصول و قوانین اور راویوں کے کوائف کو مدنظر رکھتے ہوئے صحت و سقم کالحاظ کریں یا اپنے مفاد میں ملنے والی ہر روایت کو اندھا دھند پیش کرتے جائیں۔
ذیل میں سانحۂ حرہ کے دوران قبر نبوی سے اذان کے بارے میں ملنے والی روایت اپنی تمام تر سندوں اور ان پر تبصرے کے ساتھ پیش خدمت ہے۔ فیصلہ خود فرمائیں !
روایت نمبر : ➊
لما كان أيام الحرة لم يؤذن فى مسجد النبى صلى اللہ عليه وسلم ثلاثا، ولم يقم، ولم يبرح سعيد بن المسيب المسجد، وكان لا يعرف وقت الصلاة، إلا بهمهمة، يسمعها من قبر النبى صلى اللہ عليه وسلم .
’’ سانحۂ حرہ کے دوران تین دن تک مسجدِ نبوی میں اذان و اقامت نہیں ہوئی تھی۔ ان دنوں امام سعید بن مسیّب رحمہ اللہ مسجدِ نبوی ہی میں مقیم تھے۔ انہیں نماز کا وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک سے سنائی دینے والی آواز ہی سے ہوتا تھا۔ “ [مسند الدارمي : 44/1]
تبصرہ :
اس کی سند ’’ انقطاع “ کی وجہ سے ’’ ضعیف “ ہے۔
سانحۂ حرہ، اسے بیان کرنے والے راوی سعید بن عبدالعزیز تنوخی رحمہ اللہ کی پیدائش سے بہت پہلے رونما ہو چکا تھا۔ پھر سعید بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی امام سعید بن مسیّب رحمہ اللہ سے ملاقات بھی نہیں ہوئی۔ حرہ کا واقعہ 63 ہجری میں رونما ہوا اور امام سعید بن مسیّب رحمہ اللہ 94 ہجری میں فوت ہوئے، جبکہ سعید بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی پیدائش 90 ہجری کو ہوئی۔
پھر امام سعید بن مسیّب رحمہ اللہ مدینہ منورہ میں فوت ہوئے، جبکہ سعید بن عبدالعزیز رحمہ اللہ شام میں پیدا ہوئے۔ اب کیسے ممکن ہے کہ سعید بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے یہ روایت سعید بن مسیّب رحمہ اللہ سے خود سنی ہو ؟ انہیں کس شخص نے یہ بات بیان کی، معلوم نہیں۔ لہٰذا یہ روایت ’’ انقطاع “ کی وجہ سے ’’ ضعیف “ ہے۔
روایت نمبر : ➋
أخبرنا محمد بن عمر، قال : حدثني طلحة بن محمد بن سعيد، عن أبيه، قال : كان سعيد بن المسيب أيام الحرة فى المسجد،…، قال : فكنت إذا حانت الصلاة أسمع أذانا يخرج من قبل القبر، حتٰي أمن الناس .
’’ امام سعید بن مسیّب رحمہ اللہ سانحۂ حرہ کے دنوں میں مسجدِ نبوی ہی میں مقیم تھے۔۔۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ جب بھی اذان کا وقت ہوتا، میں قبر نبوی سے اذان کی آواز سنتا۔ جب تک امن نہ ہو گیا، یہ معاملہ جاری رہا۔ “ [الطبقات الكبرٰي : 132/5]
تبصرہ :
یہ من گھڑت قصہ ہے، کیونکہ اس کی سند میں :
➊ محمد بن عمر واقدی جمہور محدثین کرام کے نزدیک ’’ ضعیف “ اور ’’ متروک “ ہے۔
➋ دوسرا راوی طلحہ بن محمد بن سعید ’’ مجہول “ ہے۔
◈ اس کے بارے میں امام ابوحاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لا اعرف ’’ میں اسے نہیں جانتا۔ “ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم : 486/4 ]
➌ تیسرے راوی محمد بن سعید بن مسیّب کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’ مقبول “ (مجہول الحال ) قرار دیا ہے۔ [تقريب التهذيب : 5913 ]
امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے اپنی کتاب [الثقات 421/7] میں ذکر کیا ہے، کسی معتبر امام نے اس کی توثیق نہیں کی۔
➌ [الطبقات الکبری لابن سعد(131/5)] ، [تاریخ ابن ابی خیثمہ(2011)] ، [دلائل النبوۃ لابی نعیم الاصبہانی(510)] اور [مثیر العزم الساکن لابن الجوزی(476)] میں
جو سند مذکور ہے۔ اس کا راوی عبدالحمید بن سلیمان مدنی جمہور محدثین کرام کے نزدیک ’’ ضعیف “ ہے۔ اس کے بارے میں :
◈ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ليس بشيئ . ’’ یہ فضول راوی ہے۔ “ [تاريخ ابن معين برواية العباس الدوري : 160/3 ]
◈ امام علی بن مدینی رحمہ اللہ نے اسے ’’ ضعیف “ قرار دیا ہے۔ [سؤالات ابن أبي شيبة لعليّ المديني : 117 ]
◈ امام ابوزرعہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ضعيف الحديث . ’’ اس کی بیان کردہ حدیث ضعیف ہوتی ہے۔ “ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم : 14/6 ]
◈ امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ليس بقوي . ’’ یہ بالکل بھی مضبوط نہیں۔ “ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم : 14/6 ]
◈ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے [ كتاب الضعفاء والمتروكين351 ] میں ذکر فرمایا ہے۔
◈ امام یعقوب بن سفیان فسوی رحمہ اللہ نے انہیں ایسے راویوں میں ذکر کیا ہے، جن کی روایت قابل التفات نہیں ہوتی، پھر فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے ساتھی محدثین سے سنا ہے کہ وہ اسے ’’ ضعیف “ کہتے ہیں۔ [المعرفة والتاريخ : 150/3 ]
◈ امام نسائی رحمہ اللہ نے بھی اسے ’’ ضعیف “ قرار دیا ہے۔ [كتاب الضعفاء والمتروكين : 397 ]
◈ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لا شيئ . ’’ یہ کسی کام کا نہیں۔ “ [الثقات : 5927 ]
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اسے ’’ ضعیف “ ہی قرار دیا ہے۔ [تقريب التهذيب : 3764 ]
جمہور محدثین کرام کی اس تضعیف کے مقابلے میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا مَا أَرٰي بِهٖ بَأْسًا [العلل : 194] کہنا اور امام ابن عدی رحمہ اللہ وهو ممن يكتب حديثه [ الكامل : 319/5 ] کا کہنا اس کو ثقہ ثابت نہیں کر سکتا۔
روایت نمبر : ➍
أنبأنا ذاكر بن كامل بن أبي غالب الخفاف، فيما أذن لي فى روايته عنه، قال : كتب إلى أبو على الحداد، عن أبي نعيم الـأصبهاني، قال : أنبأنا جعفر بن محمد بن نصير : أخبرنا أبو يزيد المخزومي : أخبرنا الزبير بن بكار : حدثنا محمد بن الحسن (بن زبالة) : حدثني غير واحد منهم، عن عبد العزيز بن أبي حازم، عن عمر بن محمد، أنه لما كان أيام الحرة ترك الـأذان فى مسجد رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم ثلاثة أيام، وخرج الناس إلى الحرة، وجلس سعيد بن المسيب فى مسجد رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم، قال : فاستوحشت، فدنوت من قبر النبى صلى اللہ عليه وسلم، فلما حضرت الصلاة، سمعت الـأذان فى قبر النبى صلى اللہ عليه وسلم .
’’ جن دنوں حادثہ حرہ رونما ہوا، مسجد نبوی میں تین دن تک اذان نہ ہوئی۔ لوگ حرہ کی طرف نکل چکے تھے، لیکن سعید بن مسیّب رحمہ اللہ مسجد نبوی میں بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں تنہائی میں وحشت محسوس کرنے لگا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے قریب ہو گیا۔ جب نماز کا وقت ہوا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرمبارک سے اذان کی آواز سنی۔ “ [الدرّة الثمينة فى أخبار المدينة، ص : 159 ]
تبصرہ :
یہ سفید جھوٹ ہے۔ اس کا راوی محمد بن حسن بن زبالہ مخزومی ’’ کذاب “ اور جھوٹی حدیثیں گھڑنے کا شیدائی تھا۔
اس کے بارے میں :
➊ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ليس بثقة، كان يسرق الحديث، كان كذابا، ولم يكن بشيئ . ؟
’’ یہ قابل اعتماد نہیں تھا، حدیثوں کا سرقہ کرتا تھا، جھوٹا اور فضول شخص تھا۔ “ [تاريخ ابن معين برواية العباس الدوري : 511,510/2 ]
➋ امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
واهي الحديث، ضعيف الحديث، منكر الحديث، عنده مناكير، وليس بمتروك الحديث .
’’ اس کی بیان کردہ حدیث کمزور، ضعیف اور منکر ہوتی ہے۔ اس کے پاس عجیب و غریب قسم کی روایات ہیں، البتہ یہ متروک الحدیث نہیں۔ “ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم : 228/7 ]
➌ امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
متروك الحديث .
”محدثین نے اس کی روایات چھوڑ دی ہیں۔ “ [كتاب الضعفاء والمتروكين : 535 ]
➍ امام ابوزرعہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وهو واهي الحديث .
’’ اس کی بیان کردہ حدیث کمزور ہوتی ہے۔ “ [الجرح والتعديل : 228/7]
➎ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے بھی اسے ’’ متروک “ قرار دیا ہے۔ [سؤالات البرقاني للدارقطني : 427 ]
➏ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
كان يسرق الحديث، ويروي عن الثقات ما لم يسمع منهم، من غير تدليس منهم .
’’ یہ حدیثوں کا سرقہ کرتا تھا اور ثقہ راویوں سے بغیر تدلیس کے وہ روایات بیان کرتا تھا، جو اس نے ان سے نہیں سنی ہوتی تھیں۔ “ [المجروحين : 275/2]
➐ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
كذبوه . ’’ محدثین کے نزدیک یہ شخص جھوٹا تھا۔ “ [تقريب التهذيب : 8515 ]
◈ نیز فرماتے ہیں :
متفق علٰي ضعفه .
’’ اس کے ضعیف ہونے پر سب محدثین کا اتفاق ہے۔ “ [فتح الباري : 298/11 ]
↰ یہ جروح میں لتھڑا ہوا راوی ہے، اس کے بارے میں ادنیٰ کلمہ توثیق بھی ثابت نہیں۔ قبر نبوی سے اذان کی آواز آنے کے بارے میں دنیا جہان میں یہی چار سندیں ہیں، جن کا حال آپ نے ملاحظہ فرما لیا ہے۔ دین کی بنیاد سند پر ہے، جب کسی قصے کہانی کی سندیں جھوٹی اور ناقابل اعتبار ہوں تو اس کو بیان کرنا جھوٹ کو رواج دینے کی کوشش ہے۔ بعض لوگ جھوٹی سندوں پر مبنی روایات سے اپنے عقائد اخذ کرتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں :
إن النبى صلى اللہ عليه وسلم حي،…، وإنه يصلي فى قبره بأذان وإقامة .
’’ بلاشبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں۔۔۔، اور آپ اپنی قبر مبارک میں اذان اور اقامت کے ساتھ نماز ادا فرماتے ہیں۔ “ [فتح الملهم : 419/3 ]
قبر مبارک میں اذان اور اقامت کے ساتھ نماز پڑھنے کا نظریہ قطعی طور پر ثابت نہیں۔
قبر نبوی سے اذان والی روایات کی حقیقت آپ نے ملاحظہ کر ہی لی ہے۔ خواہ مخواہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق مبالغہ آمیزی پر مبنی عقیدہ گھڑ لیا گیا ہے۔
إن كثيرا من الـأعمال قد تثبت فى القبور كأذان والإقامة عند الدارمي، وقرائ ة القرآن عند الترمذي .
’’ قبروں میں بہت سے اعمال ثابت ہیں، جیسا کہ سنن دارمی میں اذان و اقامت ثابت ہے اور سنن ترمذی میں قرآن کی قرأت۔ “ [فيض الباري : 183/1 ]
دارمی والی روایت کی حیثیت تو واضح کی جا چکی ہے، اب ترمذی والی روایت بھی ملاحظہ ہو :
ضرب بعض أصحاب النبى صلى اللہ عليه وسلم خبائ ه علٰي قبر، وهو لا يحسب أنه قبر، فإذا فيه إنسان يقرأ سورة ﴿تبارك الذى بيده الملك﴾ حتٰي ختمها، فأتي النبى صلى اللہ عليه وسلم، فقال : يا رسول اللہ ! إني ضربت خبائي علٰي قبر، وأنا لا أحسب أنه قبر، فإذا فيه إنسان يقرأ سورة تبارك الملك، حتٰي ختمها، فقال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم : هي المانعة، هي المنجية، تنجيه من عذاب القبر .
’’ ایک صحابی نے انجانے میں کسی قبر پر اپنا خیمہ لگا لیا۔ اس میں ایک انسان سورۂ ملک کی قرأت کر رہا تھا۔ اس نے مکمل سورت پڑھی۔ صحابی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی : اللہ کے رسول ! میں نے انجانے میں ایک قبر پر اپنا خیمہ لگا لیا تو اس میں ایک انسان سورۂ ملک کی قرأت کر رہا تھا، اس نے پوری سورت پڑھی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سورۂ ملک اپنے پڑھنے والے سے عذاب کو روکتی ہے اور اسے عذاب ِ قبر سے نجات دیتی ہے۔ “
تبصرہ :
اس کی سند سخت ترین ’’ ضعیف “ ہے، کیونکہ :
➊ اس کا راوی یحییٰ بن عمرو بن مالک نکری ’’ ضعیف “ ہے۔ اس کے بارے میں :
◈ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
كان منكر الرواية عن أبيه .
’’ یہ اپنے والد سے منکر روایات بیان کرتا تھا۔ “ [المجروحين : 114/3]
مذکورہ بالا روایت بھی یحییٰ بن عمرو اپنے والد ہی سے بیان کر رہا ہے، لہٰذا یہ جرح مفسر ہوئی۔ اس راوی کو امام یحییٰ بن معین، امام احمد بن حنبل، امام ابوزرعہ رازی، امام نسائی، امام دارقطنی [كتاب الضعفاء والمتروكين : 850] وغیرہم نے بھی ’’ ضعیف “ قرار دیا ہے۔
امام دارقطنی رحمہ اللہ کا اس کے بارے میں صويلح يعتبر به کہنا ثابت نہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اسے ’’ ضعیف “ ہی قرار دیا ہے۔ [تقريب التهذيب : 7614]
➋ یحییٰ بن عمرو کے والد عمرو بن مالک نکری (حسن الحدیث ) یہ روایت ابوالجوزاء سے بیان کرتے ہیں اور ان کی ابوالجوزاء سے روایت ’’ غیر محفوظ “ ہوتی ہے۔ [تهذيب التهذيب لابن حجر : 336/1 ]
یہ تھی کشمیری صاحب کی دلیل جس کا حشر آپ نے دیکھ لیا۔ کسی غیر ثابت روایت کو اپنا عقیدہ بنا لینا کیسے جائز ہے ؟ کھوٹے سکے کسی کام کے نہیں ہوتے۔ دین و عقیدہ کی بنیاد صرف صحیح احادیث بنتی ہیں۔
الحاصل : واقعہ حرہ کے وقت قبر نبوی سے اذان سنائی دینا ثابت نہیں اس بارے میں کوئی روایت پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتی۔ لہٰذا اس قصے کو بیان کرنا اور اس سے مسائل کا استنباط کرنا دین اسلام کے ساتھ خیر خواہی پر مبنی نہیں۔