طاق راتوں میں سحری تک وعظ: 2 آراء اور شرعی رہنمائی

رمضان کی طاق راتوں میں سحری تک پروگرام منعقد کرنے کا حکم

سوال:

رمضان المبارک کی طاق راتوں میں بعض مقامات پر سحری تک دینی پروگرام رکھے جاتے ہیں۔ ان میں وعظ و نصیحت کی مجالس سحری کے وقت تک جاری رہتی ہیں، پھر سحری کروا کر لوگوں کو رخصت کر دیا جاتا ہے۔ پچھلے سال کچھ افراد نے اس عمل کو "صریح بدعت” قرار دیا۔ اس سال پروگرام کی انتظامیہ کے کچھ افراد بضد ہیں کہ طاق رات میں ہی پروگرام منعقد کیا جائے، اور اس کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ وعظ و نصیحت بھی عبادت کی ایک شکل ہے۔ ایسے حالات میں کیا اس عمل کی کچھ گنجائش نکلتی ہے؟

جواب  از  فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ،  فضیلۃ الباحث واجد اقبال حفظہ اللہ

عمومی اصول:

وعظ و نصیحت کے لیے شریعت نے کوئی خاص وقت مقرر نہیں کیا، بلکہ صرف اس بات کی ترغیب دی گئی ہے کہ لوگوں کو اکتاہٹ محسوس نہ ہو۔

رمضان کے آخری عشرے میں انفرادی عبادات کو ترجیح حاصل ہے، خاص طور پر معتکفین کے لیے، کہ وہ اس پہلو کا خیال رکھیں۔

طاق راتوں میں سحری تک وعظ و نصیحت:

اگرچہ وعظ و نصیحت بذات خود ایک عبادت ہے، لیکن اسے سحری تک مسلسل جاری رکھنا اور اسے مکمل رات پر محیط کرنا محل نظر ہے۔

اس عمل کو افہام و تفہیم کے ذریعے حل کرنا چاہیے، تاکہ توازن قائم رہے۔

عمل کا جائز پہلو:

عرب ممالک اور دیگر جگہوں پر تراویح کے بعد دو یا تین گھنٹے کا وقفہ دیا جاتا ہے، جس کے بعد نوافل ادا کیے جاتے ہیں۔ یہ عمل جواز کے درجے میں آتا ہے۔

لہٰذا، اگر کسی مجلسِ وعظ و نصیحت میں یہ ترتیب رکھی جائے کہ:

◈ رات کے آغاز میں مختصر بیان ہو،
◈ اس کے بعد لوگوں کو انفرادی عبادت کے لیے وقت دیا جائے،
◈ اور معتکفین کو کوئی تنگی نہ ہو،

تو ایسی صورت میں یہ عمل کلی طور پر ناجائز یا بدعت قرار نہیں دیا جا سکتا۔

معتکفین کا حق:

اگر معتکفین کو اس عمل سے انفرادی عبادات میں خلل محسوس ہو رہا ہو تو:

◈ ایسی جگہ پر پروگرام نہ کیا جائے جو معتکفین کے لیے پریشانی کا باعث بنے۔
◈ عبادت کے ماحول کو بگاڑنے والا کوئی پہلو ہو تو اس کی اصلاح ضروری ہے۔

بہرحال جو چیز جواز کے درجے میں ہے اس کو کلی طور پر فتویٰ لگا کر رد نہیں کیا جا سکتا، البتہ اس میں جو بگاڑ کا پہلو ہے اس کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔

سنت کے مطابق عمل کی اہمیت:

یہ عمل بدعت ہو یا نہ ہو، خلافِ سنت ضرور ہے۔ نبی علیہ السلام بھی یہ عمل کر سکتے تھے لیکن آپ ﷺ نے ایسا نہیں کیا۔
آپ ﷺ نے عبادت کی ترغیب دی، لیکن عبادت کس طرح کرنی ہے، یہ ہمیں نبی ﷺ کی سنت سے سیکھنا ہے۔

خلاصہ:

طاق راتوں میں سحری تک دینی پروگرام اگر اس ترتیب سے ہو کہ وہ معتکفین کو تکلیف نہ دے، اور انفرادی عبادات پر غالب نہ آ جائے، تو وہ جواز کے دائرے میں رہتا ہے۔

مگر اسے مکمل طور پر رات بھر کا معمول بنا لینا، اور انفرادی عبادات پر غالب کر دینا، خلافِ سنت اور محل نظر ہے۔

اس عمل کو مکمل طور پر بدعت قرار دینا درست نہیں، البتہ جو بگاڑ پیدا ہو رہا ہو، اس کی اصلاح ضروری ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1