رکوع کے بعد ہاتھوں کی کیفیت: دو موقف اور تحقیقی جائزہ
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
رکوع سے اٹھ کر قیام کی حالت میں ہاتھوں کی پوزیشن کے بارے میں اہلِ علم کے درمیان دو مختلف آراء پائی جاتی ہیں:
پہلا موقف: رکوع کے بعد ہاتھ باندھنا
یہ رائے شیخ ابو محمد بدیع الدین الراشدی السندھیؒ اور بعض دیگر علماء کی ہے۔ استاذ محترم نے اس مسئلے پر کئی رسائل تحریر فرمائے، جیسے:
"زيادة الخشوع يوضع اليدين في القيام بعد الركوع”
دلائل:
استاذ محترم نے قیام کی حالت میں ہاتھ باندھنے والی عمومی احادیث سے اس موقف پر استدلال کیا ہے۔
تنبیہ: سنن ابی داؤد (632) میں وارد روایت "السدل” (کپڑا لٹکانے) سے منع پر بحث
یہ روایت نہ حسن ہے اور نہ صحیح بلکہ ضعیف ہے۔ یہ روایت سیدنا ابو ہریرہ اور سیدنا ابو جحیفہ رضی اللہ عنہما سے منقول ہے۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول تین اسناد:
عسل بن سفیان
جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔
امام بخاری، ابن معین اور امام احمد بن حنبلؒ نے اسے مجروح قرار دیا ہے۔
ابن حبان نے اس کی توثیق کی، مگر خود اپنی کتاب المجروحين میں ذکر کیا۔
لہذا ابن حبان کے دونوں اقوال باہم متناقض ہو کر ناقابلِ اعتبار ہو گئے۔
(میزان الاعتدال، ج2، ص552، ترجمہ عبدالرحمن بن ثابت بن الصامت)
الحسن بن ذکوان عن سلیمان الاحول عن عطا عن ابی ہریرۃ
(سنن ابی داؤد، باب السدل فی الصلوۃ، حدیث 643)
امام ابوداؤدؒ نے حدیث کی ضعف کی طرف اشارہ کیا۔
الحسن بن ذکوان مدلس ہیں، اگر سماع کی تصریح کریں تو حسن درجہ کے راوی ہیں۔
صحیح بخاری
(کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنۃ والنار، 6566)
میں "حدثنا” سے سماع کی تصریح موجود ہے۔
عمران بن مسلم القصیر نے اس کی متابعت تامہ کی ہے۔
(المعجم الکبیر للطبرانی، ج18، ص136، حدیث 284)
تاہم کذاب سے تدلیس کی وجہ سے روایت سخت ضعیف بلکہ موضوع ہونے کے قریب ہے۔
احمد بن يحيي بن الربيع بن سليمان البغدادي
(المعجم الاوسط للطبرانی، ج2، ص164، حدیث 1302، تحفۃ الاحوذی، ج1، ص296)
احمد بن یحیی مجہول الحال ہے۔
ابو بکر البکراوی ضعیف ہے
(التقریب: 3943)
سعید بن ابی عروبہ مدلس ہیں، حافظ ذہبی نے مدلس کہا ہے۔
(الفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین، ص39، سیر اعلام النبلاء للذہبی، ج2، ص415)
ان میں اختلاط کا بھی عیب ہے، لہذا یہ سند ان چار وجوہ کی بنا پر ضعیف ہے۔
سیدنا ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی سندیں:
الحسین بن اسحاق التستری
(المعجم الکبیر للطبرانی، ج22، ص111، حدیث 283)
روایت میں حفص بن ابی داؤد متروک الحدیث راوی ہے۔
(تقریب التہذیب: 1405)
بعض اسناد میں ابو مالک النخعی بھی ہے جو متروک ہے
(تقریب التہذیب: 8337)
بزار نے اسے خطا قرار دیا۔
خلاصہ:
تمام اسناد ضعیف ہیں، لہٰذا ان سے رکوع کے بعد ہاتھ چھوڑنے کی ممانعت پر استدلال درست نہیں۔
اگر یہ روایت صحیح بھی ہوتی، تب بھی اس کا مفہوم "سدل” کو یہودیوں کی طرز پر کندھوں کے درمیان کپڑا لٹکانا مراد ہوتا، نہ کہ ہاتھ چھوڑنا۔
فوائد:
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا قول:
"گویا یہ یہودی ہیں جو اپنے تہوار سے آئے ہیں”
(مصنف ابن ابی شیبہ، 2/295، حدیث 2480، 2483، سند صحیح)
ابراہیم نخعیؒ بھی یہودیوں کی طرح سدل کو مکروہ سمجھتے تھے۔
(ابن ابی شیبہ، 2/295، حدیث 2488، سند صحیح)
دوسرا موقف: ہاتھ کھلے رکھنا
یہ موقف شیخ ابو القاسم محب اللہ الراشدیؒ اور جمہور علماء کا ہے۔
دلائل:
عمومی دلائل اور محدثین کا عمل۔
سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے بسند صحیح نماز میں ارسال (ہاتھ چھوڑنا) ثابت ہے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ، 2/295، حدیث 3950، سند صحیح)
نتیجہ اور تحقیقی رائے:
دونوں موقف عمومی دلائل پر مبنی ہیں، اس لیے یہ مسئلہ اجتہادی ہے۔
جو شخص جس تحقیق پر عمل کرے گا وہ اللہ کے ہاں ماجور ہوگا،
اِن شاء اللہ۔
امام احمد بن حنبلؒ کا قول:
"ارجو ان لا يضيق ذلك ان شاء الله”
میرے خیال میں (ہاتھ باندھنے یا چھوڑنے میں) کوئی تنگی نہیں، ان شاء اللہ۔
(مسائل بن صالح احمد بن حنبل، قلمی صفحہ 90، مطبوع ج2، ص205، فقرہ نمبر 776)
راجح موقف:
تحقیق کے مطابق دونوں طریقے جائز ہیں۔
اس مسئلہ میں شدت اختیار نہ کی جائے اور جوابی رسائل کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب
(شہادت: فروری 2000ء)