سوال
جمعہ کے دن پہلی اذان اکثر زوال کے وقت یا اس سے کچھ لمحے پہلے دی جاتی ہے، تو اس اذان کے بعد ان لوگوں کی نماز کا کیا حکم ہے جو زوال کے وقت نماز ادا کرتے ہیں، جبکہ ان کی نیت نہ تو تحیۃ المسجد کی ہو، نہ تحیۃ الوضوء کی، بلکہ محض عام نفل نماز کی ہو؟
جواب از فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ، فضیلۃ الباحث داؤد اسماعیل حفظہ اللہ
زوال کا وقت اور اس کا اعتبار:
جمعہ کے دن زوال کا وقت تو آتا ہے، لیکن اس دن زوال کے وقت کا اعتبار نہیں کیا جاتا۔
اس اصول کی بنیاد پر عمومی حکم یہ دیا جا سکتا ہے کہ زوال کے وقت بھی نماز پڑھنے کی اجازت ہے۔
نماز تو ہر حالت میں نماز ہے، اگر کسی وقت میں ممنوع ہوتی تو ہر جگہ ممنوع ہوتی۔
زوال کے وقت نماز کی ممانعت کا عمومی اصول جمعہ کے دن لاگو نہیں ہوتا، لہٰذا تمام افراد اس میں شامل ہو سکتے ہیں تاکہ سہولت میسر ہو۔
اذانِ جمعہ کے وقت کی بہتر صورت:
افضل یہی ہے کہ اذان زوال کے فوراً بعد دی جائے، تاہم اگر عمومی سہولت کے لیے پہلے دے دی جائے تو بھی گنجائش ہے۔
جمعہ کے دن زوال کا استثناء:
جمعہ کے دن زوال کا وقت تو آتا ہے، لیکن اس کا اعتبار نہیں کیا جاتا، جیسے کہ:
◈ بیت اللہ میں بارہ مہینے اور چوبیس گھنٹے نماز کا وقت ہوتا ہے، وہاں زوال کا اعتبار نہیں۔
◈ اسی طرح جمعہ کے دن تمام مساجد میں زوال کے وقت نماز کا اعتبار مخصوص طور پر نہیں ہوتا۔
حدیثِ مبارکہ سے استدلال:
سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"لَا يَغْتَسِلُ رَجُلٌ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَيَتَطَهَّرُ مَا اسْتَطَاعَ مِنْ طُهْرٍ وَيَدَّهِنُ مِنْ دُهْنِهِ أَوْ يَمَسُّ مِنْ طِيبِ بَيْتِهِ، ثُمَّ يَخْرُجُ فَلَا يُفَرِّقُ بَيْنَ اثْنَيْنِ، ثُمَّ يُصَلِّي مَا كُتِبَ لَهُ، ثُمَّ يُنْصِتُ إِذَا تَكَلَّمَ الْإِمَامُ، إِلَّا غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجُمُعَةِ الْأُخْرَى۔”
جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے اور خوب اچھی طرح سے پاکی حاصل کرے اور تیل استعمال کرے یا گھر میں جو خوشبو میسر ہو استعمال کرے پھر نماز جمعہ کے لیے نکلے اور مسجد میں پہنچ کر دو آدمیوں کے درمیان نہ گھسے، پھر جتنی ہو سکے نفل نماز پڑھے اور جب امام خطبہ شروع کرے تو خاموش سنتا رہے تو اس کے اس جمعہ سے لے کر دوسرے جمعہ تک سارے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔
(صحیح البخاری: 883)
حدیث کی روشنی میں اہم نکات:
◈ اس حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ زوال کے وقت جمعہ سے پہلے نفل نماز پڑھی جا سکتی ہے۔
◈ حدیث کے الفاظ "ثُمَّ يُصَلِّي مَا كُتِبَ لَهُ” سے مراد یہ ہے کہ جتنی نماز ہو سکے پڑھ لے۔
◈ ہمارے بعض اسلاف سے 34 رکعات تک نفل نمازیں جمعہ سے قبل ثابت ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مسلسل نفل ادا کرتے تھے۔
نتیجہ:
جمعہ کے دن زوال کے وقت نفل نماز پڑھنے کی اجازت ہے، خواہ تحیۃ المسجد یا تحیۃ الوضوء کی نیت نہ بھی ہو۔
اس دن زوال کا عمومی ممانعت والا حکم لاگو نہیں ہوتا، اس لیے نماز عام نفل کی نیت سے بھی درست ہے۔
سنت اور عملِ صحابہ و سلف سے اس کی تائید ہوتی ہے۔