موبائل کی خرید و فروخت: بغیر قبضہ بیچنے کا شرعی حکم

سوال

ایک شخص نے 24,000 روپے میں ایک موبائل خریدا اور اُسے 30,000 روپے میں بیچ رہا ہے، حالانکہ وہ موبائل فی الحال اس کے پاس موجود نہیں ہے۔ وہ ایڈوانس کچھ رقم لے کر باقی قسطوں میں رقم وصول کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ کیا یہ طریقہ کار جائز ہے؟

جواب از فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

جو چیز کسی کے قبضے میں موجود نہ ہو، اس کی خرید و فروخت شرعاً جائز نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیثِ مبارکہ سے اس مسئلے کی وضاحت ہوتی ہے۔

حدیث مبارکہ

سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

"أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَأْتِينِي الرَّجُلُ، ‏‏‏‏‏‏يَسْأَلُنِي مِنَ الْبَيْعِ مَا لَيْسَ عِنْدِي أَبْتَاعُ لَهُ مِنَ السُّوقِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَبِيعُهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَا تَبِعْ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ”
[سنن الترمذي: 1232]

ترجمہ

’’میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض گزار ہوا: کچھ لوگ میرے پاس آتے ہیں اور ایسی چیز خریدنا چاہتے ہیں جو میرے پاس موجود نہیں ہوتی، تو کیا میں ان کے لیے بازار سے خرید کر پھر بیچ سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو چیز تمہارے پاس نہیں ہے، اسے مت بیچو۔‘‘

شرعی اصول

جس چیز پر خریدار کا قبضہ نہ ہو، اسے آگے بیچنا ناجائز ہے۔

شریعت کا حکم ہے کہ انسان پہلے کسی چیز کو خود قبضے میں لے، اس کے بعد وہ اسے فروخت کرے۔

اب چاہے وہ چیز نقد فروخت کرے یا قسطوں پر، یہ جائز ہوگا۔

موجودہ مسئلے کی شرعی حیثیت

سوال میں ذکر کیا گیا ہے کہ موبائل اس شخص کے پاس موجود نہیں ہے۔

وہ ایڈوانس رقم لے کر بعد میں قسطوں پر موبائل دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔

چونکہ موبائل اس کے قبضے میں نہیں ہے، اس لیے یہ خرید و فروخت کا طریقہ ناجائز ہے۔

اگر وہ پہلے موبائل خود خرید کر اپنے قبضے میں لے لے، تو پھر چاہے وہ اسے قسطوں پر بیچے یا نقد، دونوں صورتیں جائز ہیں۔

خلاصہ

جب تک چیز قبضے میں نہ ہو، اس کی فروخت جائز نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح ہدایت ہے کہ
’’جو چیز تمہارے پاس نہیں ہے، اسے مت بیچو۔‘‘ لہٰذا موبائل فون کی ایسی بیع جس میں وہ فی الحال بیچنے والے کے پاس موجود نہ ہو، ناجائز ہے۔ البتہ جب وہ شخص پہلے خود موبائل خرید کر اپنے قبضے میں لے لے، پھر چاہے نقد بیچے یا قسطوں پر، یہ جائز ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے