سوال
وضوء میں پانی زور سے منہ پر مارنے کے متعلق فقہاء کا یہ قول کہ ’’وضوء میں پانی کو منہ پر مارنا مکروہ ہے‘‘ – کیا اس کی کوئی دلیل موجود ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
فقہاء کا یہ قول کہ ’’وضوء میں پانی زور سے منہ پر مارنا مکروہ ہے‘‘، دراصل دلیل کے خلاف ہے۔ اس سلسلے میں صحیح سند سے ایک واضح روایت موجود ہے جو اس موقف کی تردید کرتی ہے۔
صحیح حدیث سے وضاحت
سنن ابی داؤد (1/175) میں ایک روایت صحیح سند کے ساتھ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، جس میں وہ فرماتے ہیں:
"مجھ پر حضرت علی رضی اللہ عنہ (یعنی ابن ابی طالب) تشریف لائے، وہ ابھی پیشاب سے فارغ ہو کر آئے تھے۔
انہوں نے وضوء کے لیے پانی منگوایا۔ ہم نے ایک برتن میں پانی لا کر ان کے سامنے رکھ دیا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
اے ابن عباس! کیا میں آپ کو نہ دکھاؤں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے وضوء فرمایا کرتے تھے؟
میں نے عرض کیا: ضرور!
تو انہوں نے برتن سے اپنے ہاتھ پر پانی انڈیلا اور اُسے دھویا۔
پھر اپنا دایاں ہاتھ برتن میں داخل کر کے، دوسرے ہاتھ پر پانی بہایا۔
پھر دونوں ہاتھ دھوئے۔
پھر کلی کی اور ناک میں پانی چڑھا کر جھاڑا۔
پھر دونوں ہاتھ پانی میں داخل کر کے پانی لیا اور منہ پر مارا۔
الحدیث”
(سنن ابی داؤد، 1/175)
نتیجہ
یہ حدیث واضح طور پر اس بات کی نفی کرتی ہے کہ وضوء میں پانی زور سے منہ پر مارنا مکروہ ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی طریقہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ذریعہ بیان ہوا، اور انہوں نے منہ پر پانی مارا۔
لہٰذا یہ کہنا کہ وضوء میں پانی زور سے منہ پر مارنا مکروہ ہے، صریح غلطی ہے۔
چند اہم نکات
◈ بعض فقہی کتب میں ایسے کئی مسائل موجود ہیں جن کی اصل صرف رائے ہوتی ہے، ان کے پیچھے کوئی واضح دلیل نہیں ہوتی۔
◈ دین کی اصل بنیاد دلیل اور سنت پر ہے، نہ کہ محض قیاس یا رائے۔
ھذا ما عندي، واللہ أعلم بالصواب