حسن خاتمہ کی 12 علامات صحیح احادیث کی روشنی میں
تحریر: عمران ایوب لاہوری

حسن خاتمہ کی علامات

➊ وفات کے وقت کلمہ شہادت پڑھنا:
کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، ”جس کا آخری کلام لا إله إلا الله ہو گا وہ جنت میں داخل ہو گا ۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 2673 ، كتاب الجنائز: باب فى التلقين ، أبو داود: 3116]
➋ وفات کے وقت پیشانی پر پسینہ نمودار ہونا:
جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
موت المومن بعرف الجبين
”مومن کی موت پیشانی کے پسینے کے ساتھ ہوتی ہے۔“
[صحيح: أحكام الجنائز: ص/49 ، ترمذي: 982 ، كتاب الجنائز: باب ما جاء أن المومن يموت بعرق الحبين ، نسائي: 1829 ، ابن ماجة: 1452 ، أحمد: 350/5 ، حاكم: 361/1]
➌ جمعہ کی رات یا دن میں فوت ہونا:
کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
ما من مسلم يموت يوم الجمعة أوليلة الجمعة إلا وقاه الله فتنة القبر
”جو بھی مسلمان جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات کو فوت ہو گا اللہ تعالیٰ اسے قبر کے فتنے سے بچا لیں گے ۔“
[حسن صحيح: أحكام الجنائز: ص/ 50 ، أحمد: 6582]
➍ میدان قتال میں شہادت کی موت حاصل کرنا:
کیونکہ شہید کو ایسے چھ انعامات عطا کیے جاتے ہیں جو کسی دوسرے کو عطا نہیں کیے جاتے ۔
[صحيح: أحكام الجنائز: ص/ 50 ، ترمذي: 1663 ، ابن ماجة: 2799 ، كتاب الجهاد: باب فضل الشهادة فى سبيل الله ، أحمد: 131/4]
اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ”اللہ کی راہ میں قتل ہونے والوں کو مردہ گمان نہ کرو بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں اور انہیں رزق دیا جا رہا ہے ۔“ [آل عمران: 169 – 171]
➎ فی سبیل اللہ غزوہ کے لیے جاتے ہوئے طبعی موت سے وفات پا جانا:
ارشاد باری تعالی ہے کہ :
وَمَنْ يَخْرُجُ مِنْ بَيْتِهِ مُهَاجِرًا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ يُدْرِكُهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى اللهِ [النساء: 100]
”جو کوئی اپنے گھر سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نکل کھڑا ہوا پھر اسے موت نے آ لیا تو بھی یقیناََ اس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمے ثابت ہو گیا۔ “
➏ طاعون کے مرض سے موت آنا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: :
الطاعون شهادة لكل مسلم
”طاعون ہر مسلمان کے لیے شہادت ہے۔“
[بخاري: 2830 ، كتاب الجهاد والسير: باب الشهادة سبع سوى القتال]
➐ پیٹ کی بیماری سے ، غرق ہو کر ، ملبے کے نیچے دب کر ، جل کر، عورت کو حالت نفاس میں اور فالج کے سبب موت آنا:
کیونکہ حدیث نبوی میں ان سب کو شہید قرار دیا گیا ہے۔
[صحيح: أحكام الجنائز: ص/ 55 ، مؤطا: 232/1 ، نسائي: 261/1]
➑ سل کی بیماری سے موت آنا:
کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
والسل شهادة
”اور سل (یعنی ٹی بی کے مرض) کے باعث موت آنا شہادت ہے۔“
[صحيح: أحكام الجنائز: ص/ 55 ، أخبار أصبحان: 217/1 – 218]
➒ اپنی جان ، مال ، دین ، اہل و عیال اور عزت کے دفاع میں موت آنا:
حدیث نبوی ہے کہ :
من قتل دون ماله فهو شهيد ومن قتل دون أهله فهو شهيد و من قتل دون دينه فهو شهيد و من قتل دون دمه فهو شهيد
”جو شخص اپنے مال کی حفاظت میں قتل کر دیا گیا ، وہ شہید ہے جو اپنے اہل وعیال کے دفاع میں قتل کر دیا گیا وہ شہید ہے، جو اپنا دین بچاتے ہوئے قتل کر دیا گیا وہ شہید ہے ، اور جو اپنی جان بچاتے ہوئے قتل کر دیا گیا وہ شہید ہے۔
[صحيح: أحكام الجنائز: ص/ 57 ، صحيح أبو داود: 3993 ، كتاب السنة: باب فى قتال اللصوص، أبو داود: 4772]
➓ پہرے کی حالت میں موت آنا:
حدیث نبوی ہے کہ :
رباط يوم و ليلة خير من صيام شهر وقيامه وإن مات جري عليه عمله الذى كان يعمله وأجرى عليه رزقه وأمن الفتان
”ایک دن اور رات پہرہ دینا ایک ماہ کے روزے اور اس کے قیام سے بہتر ہے اور اگر وہ شخص (پہرے کی حالت میں ) فوت ہو جائے تو اس کا وہ عمل جسے وہ کیا کرتا تھا اس پر جاری ہو جاتا ہے اور اس کا رزق بھی اس کے لیے جاری کر دیا جاتا ہے اور دو فتنے میں ڈالنے والے (فرشتوں یعنی منکر نکیر ) سے بھی محفوظ کر لیا جاتا ہے ۔“
[مسلم: 3537 ، كتاب الإمارة: باب فضل الرباط فى سبيل الله عز و جل]
⓫ کسی بھی نیک عمل پر موت آنا:
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے رضائے الٰہی کے لیے کلمہ لا اله الا الله کہا پھر اسی کے ساتھ اس کا خاتمہ کر دیا گیا تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔ اور جس نے رضائے الٰہی کے لیے ایک دن روزہ رکھا پھر اسی کے ساتھ اس کا خاتمہ کر دیا گیا وہ جنت میں داخل ہو گا۔ اور جس نے رضائے الٰہی کی خاطر کوئی چیز صدقہ کی پھر اسی کے ساتھ اس کا خاتمہ کر دیا گیا تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔“
[صحيح: أحكام الجنائز: ص/ 58 ، أحمد: 391/5]
⓬ لوگوں کا میت کی تعریف کرنا:
ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو لوگوں نے اس کی تعریف کی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا وجبت ”واجب ہو گئی ۔“ اسی طرح پھر ایک جنازہ گزرا تو لوگوں نے اس کی برائی بیان کی۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ پھر فرمایا: وجبت ”واجب ہو گئی ۔“ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دریافت کرنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من اثنيتم عليه خيرا و جبت لـه الـجـنة ومن أثنيتم عليه شرا و جبت له النار ”جس شخص کی تم لوگوں نے اچھی تعریف کی ہے اس کے لیے جنت واجب ہو گئی اور جس کی تم نے بری تعریف کی ہے اس کے لیے آگ واجب ہوگئی ۔“
[مسلم: 1578 ، كتاب الجنائز باب فيمن يثنى عليه خير أو شر من الموتى ، حاكم: 377/1 ، طيالسي: 2062 ، أحمد: 179/3]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1