اسلامی خاندانی نظام اور جدید نسوانی نظریات کا ٹکراؤ

اسلامی خاندانی نظام اور جدید نظریات

اسلامی تعلیمات کے مطابق معاشرے کی بنیادی اکائی خاندان ہے، جو وسیع سماجی تناظر میں پروان چڑھتا ہے، نہ کہ جدید خاندانی نظریات کے تحت۔ نبی اکرم کا مدینہ میں سب سے بڑا سماجی کارنامہ قبائلی حدود کو توڑ کر ایک ایسا مذہبی نظام قائم کرنا تھا جو مسلم امہ اور خاندان دونوں سے منسلک تھا۔ ایک مضبوط خاندان، ایک مستحکم مسلم معاشرے کی عکاسی کرتا ہے، جہاں باپ رہنما کی حیثیت رکھتا ہے اور اس پر دینی و سماجی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔

باپ کی حیثیت اور اس کی ذمہ داریاں

  • اسلامی تعلیمات میں باپ کو خاندان میں سربراہ اور ایمانی اصولوں کا محافظ قرار دیا گیا ہے۔
  • مرد کی عزت اس کے خاندان کی ضروریات پوری کرنے سے منسلک ہے۔
  • کچھ اسلامی معاشروں میں خواتین کی طرف سے بغاوت تب سامنے آئی جب مردوں نے اپنی مذہبی ذمہ داریاں بھلا دیں اور خاندان کی سربراہی میں کوتاہی برتی۔
  • خواتین کی یہ بغاوت درحقیقت مردوں کے غیر ذمہ دارانہ رویے کا ردعمل ہے، جس کے نتیجے میں انہوں نے مذہبی قیود سے خود کو آزاد سمجھنا شروع کر دیا۔

مرد و عورت کی فطری حیثیت اور ذمہ داریاں

اسلامی نقطہ نظر سے مرد و عورت کی مساوات ایک غیر منطقی بحث ہے، جیسے گلاب اور چنبیلی کی برابری پر بحث کرنا۔

  • مرد اور عورت کی فطرت مختلف ہے، اسی لیے ان کے فرائض اور حقوق بھی جدا ہیں۔
  • اسلام میں مقابلہ بازی (Competition) نہیں بلکہ ہر فرد کو اس کی فطرت کے مطابق کردار دیا گیا ہے۔

مرد کو سماجی برتری اس کی ذمہ داریوں کے باعث حاصل ہے، جیسے:

  • معاشی کفالت
  • خاندان کی سربراہی
  • معاشرتی نظم و ضبط قائم رکھنا

عورت کو کچھ مخصوص مراعات حاصل ہیں، جیسے:

  • اسے فکرِ معاش کی ضرورت نہیں
  • شادی کا انتظام اس کے سرپرست کرتے ہیں
  • فوجی اور سیاسی ذمہ داریوں سے مستثنیٰ ہے

عورت کی سماجی حیثیت اور کردار

  • مسلمان عورت کی اہم ذمہ داری خاندان کی پرورش اور تربیت ہے۔
  • گھر میں عورت کو "ملکہ” کی حیثیت حاصل ہوتی ہے، جبکہ مرد مہمان کی مانند ہوتا ہے۔
  • عورت کے لیے گھر اور خاندانی نظام دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے، اس سے علیحدگی ایک طرح سے معاشرتی موت کے مترادف ہے۔
  • وسیع خاندانی نظام عورت کو تحفظ اور اس کے وجود کی تکمیل کا احساس دیتا ہے۔

شریعت میں مرد و عورت کے حقوق کا توازن

  • شریعت مرد کو سیاسی و سماجی اختیارات اس لیے دیتی ہے کہ وہ خاندان کی حفاظت اور کفالت کر سکے۔
  • عورت کو گھر اور خاندان کی دیکھ بھال کی ذمہ داری دی گئی ہے، جو اس کی فطرت کے مطابق ہے۔
  • باہمی افہام و تفہیم کے ساتھ خاندان کا نظام چلتا ہے، جہاں مرد اور عورت ایک دوسرے کے تکمیلی کردار ادا کرتے ہیں۔

نسائی تحریک اور جدید نظریات کی حقیقت

نسوانیت کے حامی ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینا چاہتے ہیں جو جنسوں کے فرق کو ختم کر دے، جس میں:

  • شادی اور خاندان کا تصور مٹ جائے
  • حیاء، عفت اور مادری جذبات کو رد کر دیا جائے
  • نام نہاد ترقی اور آزادی کو فروغ دیا جائے

یہ درحقیقت ترقی نہیں بلکہ اخلاقی زوال کی بدترین شکل ہے، جس کا نتیجہ سماجی انتشار، اخلاقی گراوٹ اور بے راہ روی کی صورت میں نکل رہا ہے۔

تحریکِ نسواں کی مقبولیت کی وجوہات

  • جدید مادہ پرستانہ سماجی نظام کی بنیاد ہی طبقاتی تقسیم اور مساوات کے جھوٹے نعرے پر ہے۔
  • یہ نظام نہ تو انسانیت کو ذہنی ارتقا دیتا ہے، نہ قربانی کا جذبہ پیدا کرتا ہے، نہ پائیدار ہے۔
  • تاریخ گواہ ہے کہ کوئی بھی سماجی نظام مستقل نہیں رہا، مگر جدید نسائی نظریات نے انسانیت کو بے حد نقصان پہنچایا ہے۔

نتائج اور اجتماعی اثرات

  • حقوقِ نسواں کے نام پر انسانی اقدار کو پامال کیا جا رہا ہے۔
  • انسانی تعلقات کا وہ نظام جسے صدیوں سے ہر تہذیب نے اپنایا، اسے ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
  • اگر یہی رویہ جاری رہا تو انسانی سماج مکمل تباہی کی طرف چلا جائے گا۔

نتیجہ

اسلامی خاندانی نظام مرد و عورت کی فطرت کے مطابق حقوق و فرائض تقسیم کرتا ہے، جس سے ایک مضبوط اور متوازن معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ جدید نسوانی نظریات، جو خاندانی اقدار کے خلاف ہیں، معاشرتی انتشار اور اخلاقی انحطاط کا سبب بن رہے ہیں۔ اگر ان نظریات کو مکمل طور پر اپنایا گیا تو یہ انسانی تمدن کو شدید نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1