حیا اور لباس: جبر یا انتخاب؟
آج کے سوشیالوجسٹ اور ماڈرن انتھروپالوجی کے ماہرین کا ایک اہم دعویٰ یہ ہے کہ حیا دار رویے اور لباس کا انتخاب دراصل سماج کے جبر کا نتیجہ ہے، چاہے بعد میں عورت خود بھی اسے قبول کر لے۔ اگرچہ وہ خود بھی اسے اختیار کرنے لگے، تب بھی اسے معاشرتی دباؤ ہی تصور کیا جائے گا۔
لیکن، حیران کن طور پر، یہی اصول فحاشی اور بے حجابی پر لاگو نہیں ہوتا! اگر ایک لڑکی ہزاروں مردوں کے سامنے کیٹ واک کرے، تو یہ اس کی "فطرت” کہی جاتی ہے، جبکہ حجاب اور حیاداری کو جبر کا نام دیا جاتا ہے۔
فطرت اور سماجی دباؤ کی حدود
یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ فطرت اور سماج کے جبر کے درمیان حد فاصل کون مقرر کرے گا؟
- کیا ہر چیز جو انسان میں پائی جاتی ہے، وہ فطری ہے؟
- کیا ہر چیز جو انسان پر مسلط کی جائے، وہ جبر ہے؟
اگر فطرت واقعی ایک خودبخود موجود چیز ہے، تو اس کے لیے کسی سماجی جبر کا سہارا لینا کیوں ضروری ہے؟ اور اگر کچھ چیزیں واقعی سماجی جبر کا نتیجہ ہیں، تو انہیں لازمی طور پر مسلط کردہ کیوں سمجھا جائے؟
جج کون ہے؟
اس بحث میں اصل نکتہ یہ ہے کہ فیصلہ کون کرے گا کہ کون سی چیز فطری ہے اور کون سی سماجی جبر؟
- اگر انبیاء یہ فیصلہ کریں تو انہیں جانبدار کہا جائے گا۔
- لیکن اگر جدید انتھروپالوجی اور سوشیالوجی کے ماہرین یہ فیصلہ کریں تو انہیں "معروضی” (Objective) کہا جائے گا!
یہ ماہرین خود کو ایک ایسے جج کے طور پر پیش کرتے ہیں جو کسی بھی سماجی اثر سے آزاد ہیں، حالانکہ وہ بھی کسی خاص فکر یا نظریے کے پیروکار ہوتے ہیں۔ ان کے نظریات بھی کسی نہ کسی علمی یا فکری دباؤ کے تحت تشکیل پاتے ہیں، مگر ان کی غیر جانبداری کو ایک "دی گئی حقیقت” (Given Reality) سمجھا جاتا ہے!
سماجی علم پر اجارہ داری کا جبر
آج جدید تعلیمی ادارے اور یونیورسٹیاں درحقیقت اسی فکری جبر کا ایک بڑا ذریعہ بن چکی ہیں۔
- اگر کوئی مذہب اخلاقی قدروں کو فروغ دے، تو وہ جبر کہلاتا ہے۔
- لیکن اگر جدید سوشیالوجی اور انتھروپالوجی ایک خاص طرزِ فکر کو نافذ کرے، تو یہ "دانش” کہلاتی ہے!
یہ دراصل "جس کی یونیورسٹیاں، اسی کی دانش” کا اصول ہے!
اسلامی ریاست: علمی آزادی کی ضمانت
یہی وجہ ہے کہ اسلام صرف فرد کی سطح پر نہیں، بلکہ اجتماعی سطح پر بھی اپنی علمی برتری کا مطالبہ کرتا ہے۔
- اگر کوئی معاشرہ کسی مخصوص نظریے کے تحت ترتیب دیا جاتا ہے، تو وہ یا تو اسلامی اصولوں پر ہوگا، یا کسی اور نظریے کے تحت۔
- "نیوٹرل” (neutral) رہنا ایک خام خیالی ہے، کیونکہ ہر معاشرہ کسی نہ کسی فکری بنیاد پر کھڑا ہوتا ہے۔
یہ دلیل اسلامی ریاست کے قیام کی ایک مضبوط بنیاد ہے، تاکہ علم، اخلاق اور حقیقت کا تعین وحی کی روشنی میں ہو، نہ کہ کسی مغربی نظریے کے دباؤ میں۔
نتیجہ
ماڈرن سوشیالوجسٹ اور انتھروپالوجسٹ کی اصل دلیل یہی ہے کہ وہی حقائق کا تعین کریں گے، اور اس کے برعکس ہر نظریہ محض ایک "سماجی جبر” ہوگا۔ لیکن درحقیقت، یہی سب سے بڑا جبر ہے جو تعلیمی اداروں اور میڈیا کے ذریعے نافذ کیا جا رہا ہے۔