عورت، برابری اور فطری کمزوری کا فلسفہ

کمزور طبقات اور جبر

معاشرتی نظام میں کمزور طبقات جیسے کہ بزرگ، معذور، بچے اور عورتوں کے لیے خصوصی رعایت رکھی جاتی ہے۔ لیکن جب عورتیں برابری کا دعویٰ کرتی ہیں تو وہ ان رعایتوں سے دستبردار کیوں ہونا چاہتی ہیں؟

غیر مہذب معاشروں میں کمزور طبقات کو دبایا جاتا ہے، اور جب وہ خود کو اوپر اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں تو مزید جبر کا شکار ہوتے ہیں۔ تاریخ اس کی گواہ ہے کہ ایسے معاشروں میں ان پر سماج سے بغاوت کا الزام لگایا جاتا ہے اور انہیں شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا پاکستانی عورت واقعی اتنی مظلوم ہے کہ اسے بغاوت کے بغیر آزادی نہیں مل سکتی؟

عورت کا استحصال: ایک حقیقت

ہر عورت استحصال اور جبر کا شکار نہیں، مگر ایک بڑی تعداد ضرور اس کا سامنا کرتی ہے۔ دیہی یا شہری، پڑھی لکھی یا ان پڑھ، امیر یا غریب— یہ سب تفریقیں اس حقیقت کو نہیں بدل سکتیں۔ ایک پڑھی لکھی شہری عورت بدترین حالات میں زندگی گزار رہی ہوتی ہے جبکہ ایک ان پڑھ دیہاتی عورت سکون میں ہوتی ہے۔

روایتی اور جدید رویے

بعض حلقے مذہبی طبقے پر تنقید کرتے ہیں، مگر مشاہدہ یہ ہے کہ اکثر مولوی حضرات اپنی بیویوں کے ساتھ کشادہ دلی اور محبت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور دوسری شادی کی طرف کم مائل ہوتے ہیں۔ دوسری طرف، کچھ لبرل افراد بیویوں کے حق میں سخت گیر اور دوسری عورتوں کے ساتھ بے باک رویہ رکھتے ہیں، جس سے ان کی بیویاں اذیت میں رہتی ہیں۔

عورت کا اصل مسئلہ کیا ہے؟

یہ تصور غلط ہے کہ عورت صرف اس لیے استحصال کا شکار ہوتی ہے کہ وہ معاشی طور پر مرد پر انحصار کرتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ فطری طور پر کمزور ہے، اسی لیے اسے جبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو امیر اور بااختیار طبقے کی عورت کبھی جبر کا شکار نہ ہوتی، مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ مغربی دنیا میں، جہاں عورت کو مکمل قانونی تحفظ حاصل ہے، وہ پھر بھی استحصال اور تشدد سے نہیں بچ پاتی۔

عورت کی کمزوری اور اسلام کا نقطہ نظر

عورت کو ذہنی، جسمانی اور اخلاقی تشدد کا نشانہ بنانا آسان ہے، اسی لیے اسلام نے اسے محض قانونی نظام پر نہیں چھوڑا بلکہ مرد کی تربیت پر زور دیا۔ قرآن و حدیث میں مردوں کو نظریں نیچی رکھنے، عورتوں کے ساتھ نرمی برتنے، ان کی عزت کرنے، وراثت میں ان کا حق دینے اور نکاح کے ذریعے ان کا تحفظ یقینی بنانے کا حکم دیا گیا ہے۔

اسلامی تعلیمات مرد کی فطری جارحیت کو قابو میں رکھنے پر زور دیتی ہیں تاکہ عورت زیادہ محفوظ رہ سکے۔ دنیا میں جتنے بھی قوانین بنا لیے جائیں، عورت پھر بھی کہیں نہ کہیں جبر و تشدد کا نشانہ بنے گی، کیونکہ وہ فطری طور پر کمزور ہے۔

آزادی یا عدم تحفظ؟

اگر عورت کو سمجھ آجائے کہ آزادی دراصل غیر محفوظ ہوتی ہے تو وہ کبھی اسے نہ چنے۔ پاکستانی عورت یہ بات جانتی ہے، اسی لیے وہ برابری کے نعرے کی بجائے ان رعایتوں کو ترجیح دیتی ہے جو اسے کمزور ہونے کی وجہ سے ملتی ہیں۔ وہ مرد کے پیسوں پر آرام سے عیش کرتی ہے، بس میں آسانی سے سیٹ حاصل کر لیتی ہے، قطار میں لگنے سے بچ جاتی ہے، اور کسی مشکل میں ہو تو مدد کے کئی ہاتھ بڑھ جاتے ہیں۔

ہاں، اس کا استحصال بھی ہوتا ہے، مگر یہ دنیا میں کہیں بھی ممکن ہے۔ اس کا حل کسی درامد شدہ نعرے، مرد سے بغاوت، گھر سے فرار یا اپنی نسوانیت ترک کرنے میں نہیں ہے، کیونکہ فطرت کو بدلا نہیں جا سکتا۔ اس کا واحد حل مرد کی بہتر تربیت ہے، جو محض دنیاوی قوانین کے بس کی بات نہیں بلکہ دین فطرت کے احکامات پر عمل کرنے میں ہے۔

جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"آہستہ ساربان! یہ آبگینے ہیں” (بخاری)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1