خاندان کے نظام میں تین بنیادی طریقے ہوسکتے ہیں:
➊ مرد باہر کام کرے، عورت گھر سنبھالے
➋ عورت باہر کام کرے، مرد گھر چلائے
➌ دونوں کمائیں اور دونوں گھر کی ذمہ داریاں نبھائیں
جدید مغربی نظریات، خاص طور پر فیمینسٹ تحریک کے بعض حلقے، تیسری صورت کو مثالی سمجھتے ہیں، کیونکہ ان کے نزدیک یہی عورت کی "آزادی” کا ذریعہ ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ماڈل خاندانی نظام کی اصل اہمیت کو کمزور کردیتا ہے۔
خاندان: محض جذباتی و جسمانی تعلق کا نام نہیں
روایتی طور پر، خاندان ایک معاہدے پر مبنی ہوتا ہے، جس میں جنسی تعلقات ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس معاہدے کا مقصد:
- مرد و عورت کی صلاحیتوں کی تقسیم
- بچوں کی بہتر پرورش
- ازدواجی رفاقت میں ذہنی و جذباتی اطمینان
جنسی تعلقات تو شادی کے بغیر بھی ممکن ہیں، مگر شادی کا اصل مقصد محبت کو قانونی جواز دینا نہیں بلکہ نسل کی بقا، بچوں کی تربیت اور بڑھاپے کے لیے جذباتی سہارا فراہم کرنا ہے۔
مغربی رومانی نظریہ اور اس کے نقصانات
گزشتہ دو ڈھائی صدیوں میں، مغرب نے رومانی نظریے کے زیرِ اثر شادی کو محض جذباتی تسکین کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ اس تصور کے مطابق:
- شادی کا مقصد فرد کی خوشی ہے، اولاد ایک "ضمنی نتیجہ” ہے۔
- جب تک جذباتی تعلق برقرار رہے، شادی باقی رہتی ہے۔
- جذباتی تسکین ختم ہوتے ہی شادی ختم کردی جاتی ہے، چاہے اس کے اثرات بچوں اور خود میاں بیوی پر کتنے ہی سنگین کیوں نہ ہوں۔
اس نظریے کے نتیجے میں:
- طلاق کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔
- بچوں کی نفسیاتی نشوونما متاثر ہورہی ہے۔
- بڑھاپے میں میاں بیوی شدید تنہائی کا شکار ہوجاتے ہیں۔
- ذہنی امراض جیسے ڈپریشن اور اینگزائٹی میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔
ذمہ داریوں کی تقسیم: ایک فطری اصول
آج جب ہر شعبہ زندگی میں تخصص (specialization) کا اصول مانا جا رہا ہے، تو خاندان میں اس کی مخالفت غیر منطقی معلوم ہوتی ہے۔ اگر معیشت، تعلیم اور دیگر شعبوں میں ذمہ داریوں کی تقسیم سے بہتری آتی ہے، تو خاندان میں ایسا کیوں نہ ہو؟
یقیناً، بعض خواتین کو ملازمت کرنا ناگزیر ہوتا ہے، جیسے:
- اساتذہ، ڈاکٹرز اور دیگر ضروری پیشے
- بیوہ یا طلاق یافتہ خواتین
- وہ خواتین جن کے شوہر کسی مجبوری کے تحت کام کرنے سے قاصر ہوں
ایسی خواتین کے لیے ضروری ہے کہ انہیں برابری، احترام اور آزادی ملے۔ اور اگر کوئی عورت گھر کے مالی اخراجات میں حصہ ڈال رہی ہے، تو مرد پر لازم ہے کہ وہ بچوں کی پرورش اور تربیت میں برابر کا ساتھ دے۔
یہ بھی واضح رہے کہ گھر کے کاموں سے مراد محض کھانا پکانا اور صفائی نہیں، بلکہ بچوں کی پرورش اور ان کی تربیت اصل ذمہ داری ہے۔ نبی اکرمﷺ کی سنت یہی تھی کہ مرد گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹائے، یا اگر صاحب حیثیت ہو تو ملازمین کا انتظام کرے۔
خاندانی نظام میں توازن ضروری ہے
دونوں میاں بیوی کے کام کرنے والے ماڈل کو اصول نہیں، بلکہ ایک استثنائی صورت ہونا چاہیے۔ ایسے خاندانوں میں:
- بچوں کی تربیت متاثر ہوتی ہے۔
- طلاق کی شرح عام گھروں سے زیادہ ہوتی ہے۔
- طلاق کا اثر بچوں اور والدین تینوں کی زندگی پر گہرا زخم چھوڑتا ہے۔
یہی وہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر جدید معاشروں میں ذہنی دباؤ، اینگزائٹی اور ڈپریشن خوفناک حد تک بڑھ چکے ہیں۔ آج خودکشی کی شرح دہشتگردی اور جنگوں سے زیادہ ہے، جو جدید طرزِ زندگی کے منفی اثرات کا واضح ثبوت ہے۔
نتیجہ
معاشرے کی عمومی ترتیب یہی ہونی چاہیے کہ:
- خاندان میں ذمہ داریوں کی تقسیم ہو، جہاں ایک فریق گھر کا "وزیر داخلہ” ہو اور دوسرا "وزیر خارجہ”۔
- اگر عورت گھر سے باہر کام کرے، تو مرد کو گھر کی ذمہ داری میں برابر کا حصہ ڈالنا چاہیے تاکہ بچوں کی تربیت متاثر نہ ہو۔