جنس کی تبدیلی کا دھوکہ اور مغربی سماج کی حقیقت

دنیا کی پہلی "ڈی-ٹرانزیشن” کانفرنس

برطانیہ کے شہر مانچسٹر میں 2 دسمبر 2019 کو دنیا کی پہلی "ڈی-ٹرانزیشن” کانفرنس منعقد ہوئی، جو ٹوئٹر پر براہ راست نشر کی گئی۔
"ڈی-ٹرانز” ان افراد کو کہا جاتا ہے جو جنس کی تبدیلی کے بعد پچھتاوے کا شکار ہو کر اپنی پیدائشی شناخت دوبارہ اپنانا چاہتے ہیں۔
اس کانفرنس کا مقصد ایسے نوجوانوں کی رہنمائی تھا جو میڈیا اور لبرل خیالات سے متاثر ہو کر جنس کو اپنی مرضی سے تبدیل کروانے کا سوچتے ہیں۔

کانفرنس میں شرکاء کی اکثریت

◄ اس کانفرنس میں زیادہ تر وہ خواتین شامل تھیں جو پہلے اپنی جنس تبدیل کروا کر مرد بن چکی تھیں۔
◄ اس کی ایک ممکنہ وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس ایونٹ کے انعقاد میں کچھ فیمنسٹ گروہوں کا اہم کردار تھا۔
◄ یہ گروہ اس معاملے کو عورتوں کی شکست سمجھتے ہیں کہ کوئی عورت مرد بننے کو ترجیح دے، کیونکہ وہ مرد کو ایک "استحصالی جنس” سمجھتے ہیں۔

جنس کی تبدیلی اور ہم جنس پرستی

◄ کانفرنس میں ایک اور اہم نکتہ یہ اٹھایا گیا کہ کچھ خواتین جو دوسری خواتین میں جنسی کشش محسوس کرتی ہیں لیکن سماجی دباؤ کی وجہ سے کھل کر ہم جنس پرست نہیں بن سکتیں، وہ جنس کی تبدیلی کو ایک راستہ سمجھتی ہیں۔
◄ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان افراد کو اس جانب راغب کرنے کے بجائے، ہم جنس پرستی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔
◄ یوں یہ کانفرنس ایک مثبت قدم ہوتے ہوئے بھی ایک متنازع پہلو رکھتی ہے۔

ہمارے لیے سیکھنے کے پہلو

◄ اس کانفرنس سے ہمیں یہ سبق لینا چاہیے کہ ہمارے ہاں بھی مختلف طریقوں سے "ٹرانز جینڈر” کلچر کو فروغ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
◄ زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ اکثر لوگ "نفسیاتی یا اختیاری ٹرانز جینڈرز” اور "پیدائشی نقائص والے ہیجڑوں” میں فرق نہیں کرتے۔
◄ اسی لاعلمی کا فائدہ اٹھا کر کچھ حلقے خسروں سے ہمدردی کی آڑ میں لبرل نظریات کو پروان چڑھانے میں مصروف ہیں۔

جنس کی تبدیلی کے اسباب

◄ کانفرنس میں شریک ایک خاتون نے بتایا کہ اس نے مردوں کے ہاتھوں مسلسل جنسی ہراسانی سے تنگ آ کر اپنی جنس تبدیل کروا لی۔
◄ اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ جس مغربی معاشرے کو ہمارے دیسی لبرلز آئیڈیل سمجھتے ہیں، وہاں بے پناہ جنسی آزادی کے باوجود خواتین کا استحصال رکا نہیں بلکہ مزید بڑھ گیا ہے۔

جنس کی تبدیلی کے بعد کی حقیقت

◄ ایک اور شریک خاتون نے بتایا کہ اسے لگا تھا کہ لڑکا بن کر ہی وہ "خود سے محبت” کر سکے گی، اس لیے اس نے اپنی چھاتیاں، بچہ دانی اور اووریز نکلوا دیں۔
◄ لیکن بعد میں اسے یہ بھیانک حقیقت معلوم ہوئی کہ وہ اس کے باوجود مرد نہیں بن سکی۔
◄ مزید برآں، اس فیصلے کے صحت پر مرتب ہونے والے منفی اثرات نے اسے شدید پچھتاوے میں مبتلا کر دیا۔

ماہرین کی تشویش

◄ کانفرنس میں موجود ماہرین نفسیات اور ڈاکٹروں نے بتایا کہ ان پر دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ وہ جنس کی تبدیلی کے عمل کو آسان بنائیں۔
◄ اگر وہ یہ کہیں کہ اس موضوع پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے، تو انہیں "ٹرانس فوبک” قرار دے دیا جاتا ہے۔
◄ مغربی معاشرے میں "ٹرانس فوب” یا "ہوموفوب” کا لیبل لگانا بالکل ویسا ہی ہے جیسے ہمارے ہاں کسی پر کفر کا فتویٰ لگا دیا جائے۔

◄ ایک ڈاکٹر نے یہ بھی انکشاف کیا کہ انہیں "ڈی-ٹرانز” کی اصطلاح استعمال کرنے کی اجازت نہیں۔
◄ مزید برآں، بچوں کی بلوغت کو روکنے والی دوائیوں اور جنسی تبدیلی کے ہارمونی علاج کے طویل مدتی نقصانات کے بارے میں بھی کوئی واضح تحقیق موجود نہیں، مگر اس کے باوجود اگر کوئی بچہ مخالف جنس کی جانب رجحان ظاہر کرے تو فوراً اس کی جنس تبدیل کرنے کا عمل شروع کر دیا جاتا ہے۔

مغربی لبرل ازم کا اصل چہرہ

◄ یہ کانفرنس مغربی لبرل ازم کی حقیقت کو بے نقاب کرتی ہے، جہاں ہم جنس پرستی اور ٹرانس جینڈر نظریات "مقدس عقائد” بن چکے ہیں، جن پر تنقید کرنے کی بھی اجازت نہیں۔
◄ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مغربی دنیا میں لبرل ازم کے نام پر ایک مخصوص ایجنڈا مسلط کیا جا رہا ہے، جس کے نتائج تباہ کن ثابت ہو رہے ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1