دین پر اعتراض آسان مگر قومی معاملات پر خاموشی

دین پر تنقید: آسان ہدف

آج کے دور میں دین کے بنیادی اصولوں، انبیاءؑ، اصحابؓ اور حتیٰ کہ ذاتِ خداوندی پر اعتراض کرنا عام ہو چکا ہے۔ اگر کوئی ایسا کرے تو زیادہ تر لوگ خاموش رہتے ہیں، اور میڈیا بھی اسے کوئی خاص توجہ نہیں دیتا۔ لیکن اگر کسی ملک کے نظریاتی اصولوں یا سیاسی شخصیات پر تنقید کی جائے تو شدید ردِعمل دیکھنے کو ملتا ہے۔

قومی و سیاسی حساسیت بمقابلہ دینی غیرت

◄ آج کے معاشرے میں قومی و سیاسی امور پر سخت موقف اپنانا قابلِ تعریف سمجھا جاتا ہے، جبکہ دین کے معاملے میں حساسیت کو ’’فتویٰ بازی‘‘ کہہ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
◄ اگر کسی پر قومی یا سیاسی بنیادوں پر اعتراض کیا جائے تو یہ ’’ذمہ داری‘‘ کہلاتی ہے، لیکن دین کے دفاع میں بولنا ’’عدم برداشت‘‘ تصور کیا جاتا ہے۔

ہیومن ازم اور سماجی تبدیلیاں

موجودہ فکری رجحانات میں انسان کو مرکزیت حاصل ہے، جبکہ خدا کا تصور سماجی معاملات میں غیر اہم ہوتا جا رہا ہے، العیاذ باللہ۔
ہیومن ازم اب صرف ایک نظریہ نہیں، بلکہ طرزِ زندگی بن چکا ہے، جو تعلیم، تہذیب اور ردِعمل میں مکمل طور پر رچ بس گیا ہے۔

دین کی سماجی بے دخلی

◄ شریعت کو نظامِ حکومت سے بہت پہلے نکالا جا چکا، اب اسے ذہنوں اور سماج سے بھی مٹایا جا رہا ہے۔
◄ معاملہ محض ’’نظام‘‘ کی سطح پر نہیں بلکہ سماجی شعور اور عقیدے کی تعلیم کا ہے۔
◄ اس وقت سب سے اہم محاذ ’’اعتقاد‘‘ اور ’’سماجی رویے‘‘ ہیں، نہ کہ محض سیاسی تبدیلیاں۔

دین کی محبت اور معاشرتی مزاحمت

◄ ابھی بھی معاشرہ اسلام کے ساتھ محبت رکھتا ہے، لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک مضبوط فکری و نظریاتی تحریک اٹھے جو دین اور کفر کے فرق کو نمایاں کرے۔
◄ اگر ایسا نہ ہوا تو مستقبل میں حالات مزید مشکل ہو سکتے ہیں۔

اہلِ حق کا فریضہ

◄ ضروری ہے کہ اہلِ علم اور داعیانِ دین سماجی سیکولرزم کے خلاف مضبوط محاذ بنائیں اور ایمان و کفر کے فرق کو اجاگر کریں۔
◄ اگر یہ محاذ قائم نہ کیا گیا تو دینی شعور مزید کمزور پڑ جائے گا۔
◄ تاریخ گواہ ہے کہ امت کی قوتِ مزاحمت ہمیشہ موجود رہی ہے، بس ضرورت ہے کہ پہلا قدم اٹھایا جائے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1