ابلاغی جنگ میں جذباتی ردعمل یا دانشمندانہ حکمت عملی

ابلاغی جنگ اور تکفیر: حکمتِ عملی کی ضرورت

سوشل میڈیا پر ایک نظم گردش کر رہی ہے، جس کا عنوان "ہاں تو کافر” ہے۔ ہمارے دین پسند نوجوان جوش و خروش کے ساتھ اسے شیئر کر رہے ہیں۔ یہ نظم دراصل ایک ملحد کی نظم "میں بھی کافر تو بھی کافر” کے ردعمل میں کہی گئی ہے، جس میں مذہبی طبقے پر طنز کیا گیا تھا کہ وہ ذرا ذرا سی بات پر دوسروں کو کافر قرار دیتے ہیں۔

جوابی نظم کا غیر مؤثر انداز

◄ یہ نظم ادبی لحاظ سے کچھ زیادہ معیاری نہیں، اور نہ ہی ملحد کی نظم کوئی بڑا ادبی شاہکار تھی۔
◄ ایسا لگتا ہے کہ دونوں طرف سے محض نظریاتی مشقت ہوئی ہے۔
◄ مزید یہ کہ یہ جوابی نظم نادانستہ طور پر ملحد کے مؤقف کو مزید مضبوط کرتی ہے، کیونکہ وہ جو اعتراض اٹھا رہا تھا، یہاں جذباتی ردعمل میں اسی کی تصدیق کر دی گئی ہے۔

ابلاغی جنگ کی حکمتِ عملی

یہ معاملہ فقہی بحث سے زیادہ ابلاغی کشمکش کا ہے، جس میں یہ سمجھنا ضروری ہوتا ہے کہ مخالف کس نکتے پر پوائنٹ اسکور کر رہا ہے اور کس طبقے کو متاثر کرنا چاہتا ہے۔

◄ ابلاغی جنگ میں ہمارا ہدف وہ طبقہ ہوتا ہے جو فیصلہ کن پوزیشن میں ہوتا ہے، یعنی جو نہ مکمل ہمارے ساتھ ہوتا ہے اور نہ مکمل ہمارے مخالف۔
◄ ایسے افراد کو متاثر کرنے کے لیے نہ صرف دلیل، بلکہ انداز، زبان اور پیشکش بھی انتہائی اہم ہوتی ہے۔

ملحد کا اصل مقصد

◄ ملحد یہ طعنہ محض جذباتی ردعمل کے لیے نہیں دے رہا، بلکہ اس کا مقصد اپنے فاسد خیالات کو دینداروں کی تکفیر کے پیچھے چھپانا ہے۔
◄ حقیقت یہ ہے کہ وہ خود اسلام کے اصولوں کو مانتا ہی نہیں، بلکہ ان کے خلاف سرگرم ہے۔
◄ وہ خود جانتا ہے کہ وہ کیا ہے، اور ممکن ہے کہ یہ اس کے لیے باعثِ فخر بھی ہو۔
◄ چنانچہ اس پر "کافر” کہنے کا کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا، بلکہ وہ اس سے فائدہ اٹھا کر دینداروں کو متعصب ثابت کرنے کی کوشش کرے گا۔

دیندار طبقے کے لیے چیلنج

◄ اگر دیندار طبقہ فوراً "کافر، کافر” کہنے لگے، تو ملحد کو موقع مل جاتا ہے کہ وہ خود کو مظلوم ثابت کرے اور دینداروں کو انتہاپسند بنا کر پیش کرے۔
◄ اس کے برعکس، ہمیں چاہیے کہ ہم اس کا اصل چہرہ عوام کے سامنے لے آئیں، تاکہ وہ خود ہی مجمع کے زیرِعتاب آ جائے۔

حکمتِ عملی: ملحد کی کمزوری کو نشانہ بنائیں

اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ:

◄ کچھ دیر کے لیے "فتویٰ” کی زبان بند رکھیں، کیونکہ یہ اس کے لیے ڈھال بن رہی ہے۔
◄ اس کے وہ گھناؤنے نظریات نمایاں کریں جو معاشرے کے لیے ناقابلِ قبول ہیں، جیسے کہ:

❀ اللہ اور رسول کا مذاق اڑانا۔
❀ قرآن کا استہزا کرنا۔
❀ امہات المومنین کے بارے میں گستاخانہ کلمات کہنا۔
❀ اسلامی اخلاقیات کا انکار کرنا۔
❀ شرم و حیا کے اصولوں کا مذاق اڑانا۔
❀ خاندانی اور ازدواجی رشتوں کی حرمت کو توڑنا۔
❀ مادر پدر آزاد معاشرت کو فروغ دینا۔

◄ جب یہ سب باتیں عوام کے سامنے آئیں گی، تو ان کی نظر میں ملحد خود ہی ایک مسترد شدہ کردار بن جائے گا۔

ابلاغی جنگ میں جذباتی ردعمل نقصان دہ ہو سکتا ہے

◄ یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ محض "کافر” کہنے سے لبرلز اور ملحدین لاجواب ہو جائیں گے۔
◄ یہ ایک منظم فکری جنگ ہے، جہاں جدید دنیا کی فکری تحریکیں مذہب کے خلاف سرگرم ہیں۔
◄ یہ لوگ جذباتی ردعمل کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔

تکفیر کا بےمحل استعمال: نقصان دہ حکمتِ عملی

ہمارے علما مسلسل سمجھاتے آئے ہیں کہ "تکفیر” کی سماجی کھپت (Social Consumption of Takfeer) اسلامی تحریک کے لیے نقصان دہ ہے۔ اگر اس کا بےمحل استعمال کیا جائے گا، تو:

◄ یہ ایک چٹکلہ بن کر رہ جائے گا اور اس کی شدت ختم ہو جائے گی۔
◄ دشمنوں کو دینداروں کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کا موقع ملے گا۔

نتیجہ: ابلاغی جنگ میں ہوش مندی ضروری ہے

ابلاغی جنگ محض دل کی بھڑاس نکالنے کا نام نہیں، بلکہ بردباری، حکمت اور دانشمندی کے ساتھ میدان جیتنے کا فن ہے۔

◄ ہمیں جذباتی ردعمل دینے کی بجائے حقیقت پسندانہ حکمتِ عملی اپنانا ہوگی تاکہ دین دشمن عناصر کو بے نقاب کیا جا سکے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1