مشرقی دنیا میں اصلی اور نقلی لبرلزم کا فرق

لبرلزم کی دو اقسام: اصل اور نقل

لبرلزم کی دو اقسام ہیں، خاص طور پر مسلم دنیا کے تناظر میں:

اصل لبرلزم: جو مغربی دنیا میں خود تخلیق کیا گیا اور اسی کے مالکان اسے فروغ دے رہے ہیں۔
نقلی لبرلزم: جو یہاں بناوٹی طور پر رائج کیا جا رہا ہے اور "اصلی” کے نام پر بیچا جا رہا ہے۔

اصل اور نقل کا بنیادی فرق

◈ مغربی دنیا کے لبرلز اپنی فکری مصنوعات پر بات چیت کے لیے تیار ہوتے ہیں، وہ اپنی سوچ میں نقائص کی نشاندہی قبول بھی کر لیتے ہیں اور بعض اوقات بہتری کی کوشش بھی کرتے ہیں۔
◈ دیسی لبرلز تقلید کے سوا کچھ نہیں کرتے۔ چونکہ یہ نظریہ ان کی اپنی ایجاد نہیں، اس لیے اس میں کوئی بہتری یا نظرثانی بھی ان کے دائرہ اختیار میں نہیں آتی۔ ان کی کامیابی اسی میں ہے کہ وہ مغرب کی ہر بات کو بغیر سوچے سمجھے اپنا لیں۔
◈ یہ مقامی "نقال” لبرلزم کو ایک "مقدس نظریہ” سمجھتے ہیں اور کسی تنقید کو برداشت نہیں کرتے، جبکہ مغرب میں خود لبرلز اپنے نظریات پر سوالات اٹھانے سے نہیں کتراتے۔

دیسی لبرلز کی سوچ کا المیہ

یہ طبقہ مغرب کی اندھی تقلید میں اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ وہ ہر چیز کو مغربی معیار پر پرکھنے اور مغرب کی ہر بات کو صحیح تسلیم کرنے کو اپنی فکری ترقی سمجھتا ہے۔

◄ ترکی میں کمال اتاترک اور مصر میں طہ حسین جیسے لوگوں نے یہی راگ الاپا کہ مغرب کی ہر چیز کو اپنانا ضروری ہے، چاہے وہ کیسی ہی ہو۔
◄ ڈاکٹر زکی نجیب محمود نے بھی یہی نظریہ پیش کیا کہ ترقی کے لیے مغربی علمی اور تہذیبی طرزِ حیات کو مکمل طور پر اپنانا ہوگا، حتیٰ کہ کھانے پینے، کام کرنے، کھیلنے اور لکھنے کے انداز تک کو بدلنا ہوگا۔

یہ طرزِ فکر کسی بھی قسم کے آزادانہ مکالمے کے لیے جگہ نہیں چھوڑتی، کیونکہ ان کے نزدیک جو بھی مغرب سے آئے، وہی حق ہے!

اشتراکیوں سے لے کر لبرلز تک: ایک ہی رویہ

◄ پہلے ہمیں دو نمبر اشتراکیوں سے واسطہ تھا، اب دو نمبر لبرلز سامنے آ چکے ہیں۔
◄ دونوں کی سب سے بڑی رکاوٹ اسلام تھا اور ہے۔
◄ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں نظریات کے ماننے والوں کو اسلاموفوبیا لاحق ہو گیا۔
◄ دیسی اشتراکیوں کی اصل توجہ "معاشی انقلاب” کے بجائے سرمایہ دارانہ ثقافت (فحاشی، شراب، بدکاری) کی ترویج پر تھی۔ اسلامی قدریں ان کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ تھیں، اس لیے ان کا بنیادی ہدف یہی تھا کہ نوجوانوں کو اسلامی قیود سے آزاد کر کے اپنی فکری مصنوعات کا خریدار بنایا جائے۔

یہی حکمتِ عملی آج دیسی لبرلز بھی اپنا رہے ہیں، جو سرمایہ داری کے غلام بن کر اسلامی اقدار کے خلاف جنگ چھیڑے ہوئے ہیں۔

مغربی لبرلزم اور دیسی نقالوں میں فرق

دلچسپ بات یہ ہے کہ مغرب میں خود کمیونسٹ تحریکیں سرمایہ داری کے لچر کلچر کے خلاف تھیں۔ اشتراکی ممالک میں فحاشی اور بے راہ روی پر سخت پابندیاں تھیں۔
سٹالن کی بیٹی اپنی کتاب میں لکھتی ہے کہ اس کے والد شارٹ اسکرٹ پہننے سے منع کرتے تھے۔

مگر یہاں کے دیسی اشتراکی سرمایہ داری کلچر کے ایجنٹ بنے ہوئے تھے، اور اب لبرلز انہی کے راستے پر چل رہے ہیں۔

دیسی لبرلز کی مغرب نوازی

◄ پہلے دیسی اشتراکی سوویت یونین کے تابع تھے، اس لیے مغربی استعمار کے خلاف رہتے تھے۔
◄ دیسی لبرلز پر یہ پابندی نہیں، بلکہ یہ تو مغربی استعمار کے حمایتی ہیں۔
◄ کچھ لبرلز تو اتنے آگے بڑھ گئے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے ملک میں بھی عراق کی طرح امریکی افواج داخل ہو جائیں!

مغربی اقدار کی اندھی تقلید

یہاں کے دیسی لبرلز مغرب کے صرف باطل نظریات کو درآمد کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ مغرب میں اگر کوئی اعلیٰ قدر بھی پائی جاتی ہے تو یہ اسے نظر انداز کر دیتے ہیں۔

◄ یہ مغرب کے مسائل کے حل کے لیے بنائے گئے نظاموں کو یہاں لاگو کرنا چاہتے ہیں، چاہے ان کی ضرورت نہ ہو۔
◄ مثال کے طور پر سیکولرزم مغرب میں اس لیے آیا کیونکہ وہاں کی مذہبی شخصیات ریاستی جبر میں ملوث تھیں، جبکہ عالم اسلام میں کبھی ایسا مسئلہ ہی نہیں تھا۔
◄ یہاں نہ کسی مذہبی فرقے نے دوسرے پر جبر کیا، نہ اسلام نے کبھی غیر مسلموں کو زبردستی مسلمان بنانے کی کوشش کی۔

مغرب میں لبرل ازم اس لیے کامیاب ہوا کہ وہاں مذہبی استبداد سے نجات کی خواہش تھی، جبکہ مسلم دنیا میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں۔ پھر یہاں زبردستی سیکولرزم نافذ کرنے کی کوشش کیوں؟

نتیجہ

◄ یہاں کے نقلی لبرلز مغرب کے ناقص نظریات کو اندھا دھند اپنانے پر زور دیتے ہیں، جبکہ اعلیٰ مغربی اقدار پر ان کا کوئی دھیان نہیں۔
◄ یہ لوگ مغرب کی اندھی تقلید کے قائل ہیں، نہ کہ عقلی تجزیے کے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ساتھ لبرلزم پر سنجیدہ مکالمہ ممکن نہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1