ہمارے جدیدیت پسند مفکرین اور مغربی تصورات
ہمارے جدیدیت پسند مفکرین کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ہر مغربی تصور کو بغیر گہرائی میں جائے اسلامی تاریخ میں تلاش کرنے اور اسلام پر چسپاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے لیے وہ بعض اوقات انتہائی غیر منطقی اور بے بنیاد تاویلات کا سہارا لیتے ہیں۔
اصطلاحات کا غلط استعمال
علمی دنیا میں کسی اصطلاح کو اس کے تاریخی اور فکری پس منظر کے بغیر سمجھنا ممکن نہیں ہوتا۔ اصطلاحات صرف لغوی معانی پر مشتمل نہیں ہوتیں بلکہ ان کے پیچھے ایک خاص فکری پس منظر اور تاریخی ارتقاء موجود ہوتا ہے۔ لیکن جب ان اصطلاحات کو من مانی تاویلات کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے تو علمی بددیانتی جنم لیتی ہے۔
◈ Enlightenment کی غلط تعبیر
مثلاً Enlightenment کو لے لیجیے۔ کچھ مفکرین نے یہ دعویٰ کیا کہ چونکہ یہ لفظ "روشن خیالی” کے معنی میں آتا ہے، اور "روشن” اور "خیالی” دونوں مثبت مفہوم رکھتے ہیں، لہٰذا یہ ایک اچھی چیز ہے۔
ڈاکٹر فاروق خان، جو غامدی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں، اپنی کتاب "جدید ذہن کے شبہات اور اسلام کا جواب” میں اسی قسم کی سطحی تعبیرات پیش کرتے ہیں، حالانکہ وہ خود جدید ذہن کی مبادیات سے واقف نظر نہیں آتے۔
اسی طرح ڈاکٹر شکیل اوج نے "روشن خیالی” کی لغوی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھا:
"روشن خیال فارسی زبان کا لفظ ہے، روشن کے معنی ہیں تاباں، منور، درخشاں، نیز صاف واضح اور عیاں، اور خیال کے ساتھ ‘روشن’ کی اضافت کے ساتھ اس کا مطلب ہوا واضح، صاف اور منور خیال۔”
(التفسیر سہ ماہی، اپریل/مئی/جون، 2005ء، ص3-4)
یہ وضاحت علمی نہیں بلکہ محض لغوی معنیٰ کا کھیل ہے، کیونکہ Enlightenment کا اصل تاریخی پس منظر مغربی فلسفے اور سیکولر ازم سے جڑا ہوا ہے، جسے محض لغوی ترجمے کے ذریعے اسلامی اصطلاح بنانے کی کوشش کرنا غیر علمی طرزِ عمل ہے۔
سیکولرازم کو اسلام سے جوڑنے کی کوشش
اسی طرح وحید الدین خان نے لکھا:
"موجودہ زمانے کے اسلام پسند لوگ سیکولرازم کو اسلام دشمن نظریہ سمجھتے ہیں اور غیر ضروری طور پر اس کی مخالفت کرتے ہیں، حالانکہ یہ عین صلحِ حدیبیہ کے مثل ایک واقعہ ہے۔ یہ صورتِ حال گویا ابدی صلحِ حدیبیہ ہے۔”
(الرسالہ، فروری 1990؛ ص 41)
یہ ایک انتہائی غیر منطقی تاویل ہے، کیونکہ صلح حدیبیہ ایک عارضی حکمتِ عملی تھی، جبکہ سیکولرازم ایک مکمل فکری و نظریاتی نظام ہے، جس کی بنیاد ہی مذہب کو اجتماعی زندگی سے نکالنے پر ہے۔
اسلامی اصطلاحات کے ساتھ یہی سلوک
اگر کوئی شخص اسلامی اصطلاح "سنت” کو اس کے لغوی معنی (چلن یا روایت) کی بنیاد پر اپنی مرضی کا مفہوم دے دے، تو کیا یہ علمی دیانت کے خلاف نہ ہوگا؟
اسی طرح اگر کوئی شخص "اصول فقہ” کو "سمجھ بوجھ کے اصول” یا "Rules of Understanding” کا نام دے کر اسے جدید سائنسی اصولوں کے برابر ثابت کرنے لگے، تو یہ بھی غلط ہوگا۔
◈ جہاد کی غلط تعبیر
یہی سلوک لفظ جہاد کے ساتھ ہوتا آیا ہے۔ یہ ایک خاص اسلامی اصطلاح ہے، لیکن اسے اس کے اصطلاحی مفہوم سے ہٹا کر لغوی معنی "جدوجہد” کی بنیاد پر ہر جگہ استعمال کیا جاتا ہے:
◄ مہنگائی کے خلاف جہاد
◄ بیروزگاری کے خلاف جہاد
◄ جہالت کے خلاف جہاد
◄ حتیٰ کہ مچھر اور پولیو کے خلاف جہاد
یہ سب غیر علمی رویے ہیں اور اسلامی اصطلاحات کے غلط استعمال کی مثالیں ہیں۔
فقہ اور قانون کا فرق
یہ مسئلہ صرف مغربی اصطلاحات کو اسلامیانے تک محدود نہیں بلکہ اسلامی اصطلاحات کو غیر اسلامی اصطلاحات کے مترادف قرار دینے کی کوشش میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ مثلاً فقہ کو اردو میں "قانون” اور انگریزی میں Law کے مترادف سمجھا جاتا ہے، حالانکہ یہ دونوں چیزیں مختلف ہیں۔
عام طور پر قانون اس ضابطے کو کہا جاتا ہے جو کسی ریاست نے مقرر کیا ہو اور عدالتیں اس کی روشنی میں فیصلے کریں۔ جبکہ فقہ صرف ریاستی قوانین تک محدود نہیں بلکہ انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے، جن میں عبادات، اخلاقیات، معیشت، معاشرت، اور سیاست سب شامل ہیں۔
چنانچہ فقہ کو "Law” کہنا بالکل غلط ہے، کیونکہ قانون فقہ کے وسیع تر دائرہ کار کا صرف ایک حصہ ہے۔
(مزید تفصیل کے لیے دیکھئے، ڈاکٹر محمود احمد غازی؛ محاضرات فقہ؛ ص 39، 40)
نتیجہ
یہ رویہ کہ مغربی اصطلاحات کو زبردستی اسلام سے جوڑنے کی کوشش کی جائے یا اسلامی اصطلاحات کا مغربی تعبیرات کے مطابق ترجمہ کیا جائے، علمی لحاظ سے غلط اور فکری طور پر نقصان دہ ہے۔ اصطلاحات کسی تہذیب اور علمی روایت میں مخصوص مفہوم رکھتی ہیں، اور انہیں ان کے تاریخی تناظر سے ہٹانا درحقیقت علمی بددیانتی کے مترادف ہے۔