سوال
کیا اہل تشیع کو اہل کتاب پر قیاس کرتے ہوئے ان کا ذبیحہ کھایا جا سکتا ہے؟
جواب از فضیلۃ الشیخ عبد الستار حماد حفظہ اللہ ، فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
اہل تشیع کے عقائد اور ذبیحہ کا مسئلہ:
اہل تشیع کے مختلف فرقے ہیں، جن میں تفضیلی شیعہ اور تبرائی شیعہ شامل ہیں۔
تفضیلی شیعہ وہ ہیں جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیگر صحابہ سے افضل مانتے ہیں لیکن عمومی طور پر ان کے عقائد اتنے سخت نہیں ہوتے کہ ان پر کفر کا اطلاق کیا جا سکے۔
تبرائی شیعہ وہ ہیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تبرا کرتے ہیں اور شدید غلط عقائد رکھتے ہیں۔
شیعہ عقائد کی بنیاد پر تردد:
اہل تشیع میں کئی عقائد ایسے ہیں جن کی وجہ سے ان کے ذبیحہ کے حلال ہونے پر تردد پایا جاتا ہے، مثلاً:
◈ قرآن میں تحریف کا عقیدہ۔
◈ بارہ اماموں کو معصوم سمجھنا، جیسا کہ ہم انبیاء کی معصومیت پر ایمان رکھتے ہیں۔
ان وجوہات کی بنا پر اہل تشیع کے ذبیحہ کو اہل کتاب پر قیاس کرنا درست نہیں سمجھا جاتا، خاص طور پر جب ذبح کے وقت نیت یا کلمات واضح نہ ہوں۔
نرمی اور سختی کے درمیان موقف:
ہر شیعہ کے ذبیحہ کو مطلقاً حرام قرار دینا یا قبول کرنا دونوں میں احتیاط کی ضرورت ہے۔
اگر کسی ذبیحہ کے بارے میں یہ ثابت ہو جائے کہ اسے غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہے، بسم اللہ جان بوجھ کر چھوڑ دی گئی ہے، یا یہ کسی غیر اسلامی تہوار کا حصہ ہے، تو اسے کھانا حرام ہے۔
جہاں واضح شواہد نہ ہوں، وہاں بے جا سختی سے گریز کرتے ہوئے نرمی کا رویہ اپنانا بہتر ہے۔
خلاصہ:
◈ اہل تشیع کے ذبیحہ کے بارے میں عمومی احتیاط ضروری ہے، خاص طور پر تبرائی شیعہ کے ذبیحہ سے بچنا چاہیے۔
◈ اگر ذبح کے وقت نیت یا الفاظ میں کوئی شرعی قباحت ثابت نہ ہو، تو عمومی حالات میں کچھ علماء نرمی کی گنجائش بھی دیتے ہیں۔
◈ جہاں تک ممکن ہو، حلال اور واضح ذرائع سے حاصل کردہ ذبیحہ ہی کو ترجیح دی جائے تاکہ کسی قسم کے شبہ سے بچا جا سکے۔