حجاب کا بنیادی سوال
کیا کسی غیر محرم مرد کے سامنے کوئی غیر محرم عورت بغیر کسی مجبوری کے اپنا چہرہ، سر، اور چھاتی وغیرہ کھلی چھوڑ سکتی ہے؟ خاص طور پر چہرے کے کھلا رکھنے کا معاملہ زیر بحث ہے۔ اس کا واضح اور دوٹوک جواب "نہیں” ہے۔ اس "نہیں” کی بنیاد درج ذیل دلائل پر ہے:
قرآنی دلیل
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا (سورۃ الاحزاب: 59)
"اے نبی! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے مونہوں پر نقاب ڈال لیا کریں۔ یہ اس سے زیادہ قریب ہے کہ پہچانی جائیں اور ستائی نہ جائیں۔ اللہ بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔”
آیت کا واضح حکم اور نکات:
- براہ راست نبی کریم ﷺ سے خطاب: اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ سے براہ راست امت تک یہ حکم پہنچانے کا فرمایا۔
- حکم کی عمومی حیثیت: یہ حکم ازواجِ مطہرات، نبی کی بیٹیوں اور عام مسلمان عورتوں سب کو شامل کرتا ہے۔
- چہرے کا پردہ: آیت میں چہرہ چھپانے کا ذکر جلباب (بڑی اوڑھنی) کے ذریعے کیا گیا، جو پورے جسم کو ڈھانپنے کے لیے ہے۔
مفسرین کی وضاحت
1. امام ابن جریر الطبری رحمہ اللہ (متقدمین مفسرین):
"نبی کریم ﷺ سے کہا گیا کہ اپنی بیویوں، بیٹیوں اور عام مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دیں کہ جب وہ گھروں سے باہر نکلیں تو باندیوں جیسا لباس نہ پہنیں کہ ان کے بال اور چہرہ کھلا رہے، بلکہ اپنے چہروں کو چادر سے ڈھانپ لیں تاکہ ان کی پہچان ہو جائے کہ یہ آزاد اور شریف عورتیں ہیں اور کوئی فاسق ان پر آوازہ نہ کسے۔” (تفسیر الطبری)
2. علامہ قرطبی رحمہ اللہ:
"چونکہ عرب عورتیں اپنے چہروں کو کھلا رکھا کرتی تھیں جس طرح باندیاں کھلا رکھتی تھیں، تو اس سے فتنہ پیدا ہوتا تھا۔ اللہ نے اپنے رسول ﷺ کو حکم دیا کہ وہ اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مسلمان عورتوں کو پابند کریں کہ جب وہ گھروں سے باہر نکلیں تو اپنے چہروں پر چادر لٹکا لیں تاکہ فتنے کا دروازہ بند ہو۔” (تفسیر القرطبی)
آیت اور مفسرین کے اقوال سے نتیجہ:
- یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حجاب کا حکم ازواجِ مطہرات کے ساتھ خاص نہیں بلکہ تمام مسلمان عورتوں کے لیے عام ہے۔
- باندیوں کے احکام آزاد عورتوں سے مختلف تھے، اور اس کی وضاحت فقہ کی کتب میں موجود ہے۔
حدیث مبارکہ اور عمار خان ناصر کا اعتراض
عمار خان ناصر کا کہنا ہے کہ حجاب کا حکم ازواجِ مطہرات کے لیے خاص تھا، لیکن ان کے پیش کردہ دلائل درست نہیں کیونکہ:
- جن احادیث کا ذکر کیا گیا ہے، وہ اس مسئلے سے متعلق نہیں کہ عام عورتیں چہرہ ڈھانپیں یا نہیں۔
- ان احادیث میں زیادہ تر ازواجِ مطہرات اور باندیوں کے مخصوص احکامات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
دو بنیادی نکات:
- ازواجِ مطہرات کے لیے حجاب لازم تھا جبکہ باندیوں پر یہ حکم لاگو نہیں ہوتا تھا۔
- عام آزاد عورتوں کے چہرے اور ہتھیلیوں کی طرف دیکھنے کی اجازت بعض مخصوص حالات میں دی گئی ہے، جبکہ ازواجِ مطہرات کی طرف دیکھنا ہر حال میں ممنوع تھا۔
عمار خان ناصر کے دلائل کی وضاحت:
- عمار خان ناصر کی پیش کردہ نو روایات ازواجِ مطہرات اور باندیوں کے مخصوص احکام سے متعلق ہیں، اور ان کا تعلق عام عورتوں کے حجاب کے حکم سے نہیں ہے۔
- امام طحاوی اور امام ابراہیم نخعی کے اقوال جمہور اہلِ علم کے مسلک کے مطابق ہیں، نہ کہ اس کے مخالف۔
نتیجہ
حجاب کا حکم صرف ازواجِ مطہرات تک محدود نہیں بلکہ تمام مسلمان آزاد عورتوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے چہرے کو غیر محرم مردوں کے سامنے ڈھانپیں۔