اردن کے ماہر فلکیات کی احادیث کے حوالے سے پیش گوئی
اردن کے ایک ماہر فلکیات کی جانب سے یہ بات کہی گئی کہ کچھ احادیث مئی کے وسط تک وبا کے خاتمے کی نشاندہی کرتی ہیں۔ ان کے اس بیان نے اردو خواں طبقے میں بھی کافی شہرت حاصل کر لی۔ انہوں نے اپنی رائے کی حمایت میں دو روایات پیش کیں:
پہلی روایت: مسند احمد
روایت:
عثمان بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے پھلوں کی خرید و فروخت کے متعلق سوال کیا۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس وقت تک پھلوں کی خرید و فروخت سے منع فرمایا ہے جب تک بیماری ختم نہ ہو جائے۔ میں نے پوچھا: یہ کب تک ہوتا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا: ثریا ستارے کے طلوع ہونے تک۔ (مسند احمد)
وضاحت:
یہاں حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے اپنے علاقے کے عرف کے مطابق وضاحت دی کہ ثریا ستارے کے طلوع ہونے کا مطلب بیماریوں کے ختم ہونے کا وقت ہوتا ہے۔ عرب کے معاشرتی اور موسمی حالات میں یہ مشاہدہ کیا گیا تھا کہ بہار میں بیماریاں پیدا ہوتی ہیں اور گرمی کے آغاز پر ختم ہو جاتی ہیں۔
حدیث کا دائرہ:
یہ حدیث صرف پھلوں کی بیماری کے متعلق ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں کہ مئی کے وسط تک کورونا یا کوئی بھی عالمی وبا ختم ہو جائے گی۔
دوسری روایت: مسند احمد
روایت:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جب کبھی صبح کے وقت ثریا ستارہ طلوع ہوتا ہے اور کوئی بیماری ہوتی ہے، تو وہ بیماری یا تو ختم ہو جاتی ہے یا کم ہو جاتی ہے۔” (مسند احمد، رقم الحدیث: 9093)
وضاحت:
اس روایت میں بھی بظاہر اشارہ ہے کہ ثریا ستارے کے طلوع ہونے سے بیماریوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ لیکن اس حدیث کی سند میں ضعف ہے، تاہم دیگر روایات کے ذریعے اسے "حسن لغیرہ” قرار دیا گیا ہے۔
محدثین کی وضاحت:
امام طحاوی نے اپنی کتاب "شرح مشکل الآثار” میں ابو ہریرہؓ سے مروی ایک روایت بیان کی ہے:
"جب ثریا ستارہ طلوع ہوتا ہے تو ہر علاقے سے بیماری اٹھا لی جاتی ہے۔”
(شرح مشکل الآثار)
طحاوی کی تشریح:
طحاوی نے اس حدیث کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ اس بیماری سے مراد درختوں اور پھلوں کی بیماریاں ہیں، نہ کہ عام انسانی بیماریاں۔
فطری اور سائنسی پہلو
یہ ایک عام سائنسی حقیقت ہے کہ بہار میں جراثیم زیادہ فعال ہوتے ہیں اور گرمی کے آغاز کے ساتھ ان کی شدت میں کمی آ جاتی ہے۔ لیکن اس حدیث میں ذکر کیا گیا موسمی نظام صرف عرب کے مخصوص علاقے کے لیے تھا۔ مختلف علاقوں میں موسمی حالات مختلف ہوتے ہیں، اس لیے اس حدیث کو عمومی اصول کے طور پر پیش کرنا درست نہیں۔
حدیث اور پیش گوئی کا فرق
یہ حدیث کسی قطعی پیش گوئی یا غیبی خبر دینے کے انداز میں نہیں ہے بلکہ ایک عمومی مشاہدے پر مبنی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے عرب کے مقامی حالات کے تناظر میں بیان فرمایا کہ گرمی کے آغاز کے ساتھ بیماریاں کم ہو جاتی ہیں۔ اس لیے اس حدیث کو موجودہ وبا کے خاتمے کی پیش گوئی کے طور پر پیش کرنا درست نہیں۔
علما کی مختلف آرا
ابو العباس قرطبی کی رائے منسوب کی جاتی ہے کہ اکثر علما اس بات پر متفق ہیں کہ حدیث میں بیماری سے مراد پھلوں کی بیماریاں ہیں۔ لیکن بعض علما نے اسے عمومی بیماریوں پر بھی لاگو کیا ہے اور تاریخی واقعات سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ عمومی طور پر ایسا ہوتا آیا ہے۔
لیکن اس نقطہ نظر پر تنقید:
تاریخی شواہد کی بنیاد پر کسی حدیث کا مفہوم طے کرنا درست نہیں۔ حدیث کے مفہوم کی تعیین میں اصولِ فقہ بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔
نتیجہ
- یہ بات درست ہے کہ گرمیوں میں جراثیم اور وبائی امراض کی شدت کم ہو جاتی ہے، لیکن اس بات کو دینی پیش گوئی کے طور پر پیش کرنا مناسب نہیں۔
- اگر کسی حدیث کو اس کے سیاق و سباق کے بغیر عمومی پیش گوئی کے طور پر لیا جائے، تو یہ بعض لوگوں کے ایمان کے لیے آزمائش بن سکتا ہے۔