کرونا وبا میں مذہب اور الحاد کے فکری مباحث

الحاد کا اعتراض: کعبہ اور عبادت گاہوں کی ویرانی

ملحدین اعتراض کرتے ہیں کہ اگر خدا واقعی موجود ہوتا تو کعبہ اور دیگر عبادت گاہوں کو ویران ہونے سے بچا لیتا۔ ان کے بقول، مذہب کہتا ہے کہ ہر چیز خدا کے اختیار میں ہے، تو کرونا وائرس کو خدا نے کعبہ یا دیگر مقدس مقامات سے کیوں نہ روکا؟

اعتراض کا جواب: مذہب کا حقیقت پسند مؤقف

مذہب کبھی یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ اللہ کا گھر یا کوئی عبادت گاہ ویران نہیں ہو سکتی یا اسے نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا۔ قرآن میں واضح ہے کہ عبادت گاہوں کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے، اور کعبہ کو گندا بھی کیا جا سکتا ہے:

"اس سے بڑا ظالم کون ہے جو لوگوں کو اللہ کی مساجد میں جانے سے روکے اور انہیں ویران کرنے کی کوشش کرے۔”
(البقرہ: 114)

اگر کعبہ یا دیگر مقدس مقامات کو کوئی نقصان نہ پہنچ سکتا، تو اللہ تعالیٰ ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام کو کعبہ کو پاک رکھنے کا حکم کیوں دیتا؟ (البقرہ: 125)

سوال: اللہ اپنے گھر کو نقصان سے کیوں نہیں بچاتا؟

یہ سوال سطحی نوعیت کا ہے، کیونکہ مذہب کے مطابق یہ دنیا آزمائش کا مقام ہے، جہاں انسان کو اچھے یا برے اعمال کا اختیار دیا گیا ہے۔ اللہ کسی برے کام سے فوراً نہیں روکتا، ورنہ آزمائش کا مقصد ہی ختم ہو جائے گا۔

اللہ نافرمانوں کو موقع دیتا ہے

خدا ہر وقت نافرمانوں کے خلاف جنگ پر نہیں ہوتا، بلکہ وہ اپنی وسیع رحمت کے تحت لوگوں کو سنبھلنے کا وقت دیتا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ کی مغفرت اور ہدایت کے مواقع کا ذکر بار بار کیا گیا ہے۔

وباؤں اور آفات کو اللہ کی ناراضی کیوں سمجھا جاتا ہے؟

ہر وبا یا قدرتی آفت اللہ کی ناراضی یا عذاب نہیں ہوتی۔ مذہب کے مطابق:

  • یہ کسی کی آزمائش ہو سکتی ہے، جیسے اللہ نے اپنے نبیوں اور نیک بندوں کو بھی آزمائش میں ڈالا۔
  • یہ دوسروں کے رویے کا امتحان بھی ہو سکتا ہے کہ مصیبت زدہ لوگوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا ہے۔
  • کبھی یہ عذاب کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے، لیکن اس کا بھی مخصوص پس منظر ہوتا ہے۔

جذباتی مذہبی رویے: ملحدین کو اعتراض کا موقع

بعض جذباتی مذہبی حلقے اس خیال کے حامل ہیں کہ اللہ کے گھر یا مذہبی اجتماعات پر پابندی اللہ کے غضب کو دعوت دیتی ہے۔ بعض مذہبی رہنما یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ عبادت گاہوں میں کسی کو کچھ نہیں ہو سکتا، اور اگر ہوا تو وہ سزا کے لیے تیار ہیں، جیسے مولانا جلالی صاحب کا حالیہ بیان۔

یہ رویے مذہب کی صحیح تعلیمات سے لاعلمی کا نتیجہ ہیں۔ مذہب اس قسم کے دعوؤں کی سختی سے تردید کرتا ہے، اور ان جذباتی باتوں کا کوئی شرعی جواز نہیں۔

معجزات اور خوارق عادت کا صحیح تناظر

بعض لوگ کہتے ہیں کہ اللہ نے ابرہہ کے لشکر کو ابابیل کے ذریعے ہلاک کیا، تو اب کرونا جیسی وبا سے کعبہ کو بچانے کے لیے کیوں کچھ نہیں کیا؟

اس کا جواب یہ ہے کہ:

  • معجزات مخصوص حالات میں اللہ کی حکمت کے تحت وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ انہیں عمومی اصول نہیں سمجھا جا سکتا۔
  • مثلاً، جنگِ بدر میں مسلمانوں کی معجزانہ مدد کی گئی، لیکن جنگِ احد میں انہیں شکست ہوئی۔ یہ اللہ کی حکمت اور انسان کی آزمائش کا حصہ ہے۔

دعا اور دوا: مذہب کی متوازن تعلیمات

ملحدین کہتے ہیں کہ اگر سب کچھ تدبیر اور دوا سے ہونا ہے، تو دعا کی کیا ضرورت ہے؟ دوسری طرف کچھ خوش عقیدہ لوگ صرف دعا پر انحصار کرتے ہیں اور مادی اسباب کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔

مذہب کا مؤقف واضح ہے کہ:

  • دوا اور دعا دونوں ضروری ہیں۔
  • حضور اکرم ﷺ اور صحابہ کرام دونوں کو اختیار کرتے تھے۔
  • شفا نہ دعا میں ہے نہ دوا میں، بلکہ اللہ کی مشیت میں ہے۔

خلاصہ

  • دنیا آزمائش کا مقام ہے، اور انسان کو مادی اسباب کے ساتھ روحانی تعلق بھی قائم رکھنا چاہیے۔
  • جذباتی یا سطحی اعتراضات اور رویے مذہب کی درست پوزیشن کو خراب کرتے ہیں۔
  • مذہب کے مطابق انسان تدبیر بھی کرے اور دعا بھی کرے، لیکن نتیجہ اللہ پر چھوڑ دے۔

اللہ ہمیں دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے