رشتوں کے تین کونے
انسانی رشتے دو افراد کے درمیان نہیں بلکہ تین عناصر پر مبنی ہوتے ہیں:
- اگر تیسرے کونے پر خدا ہو تو رشتہ اخلاقی کہلاتا ہے۔
- اگر تیسرے کونے پر ریاست ہو تو رشتہ قانونی بن جاتا ہے۔
- جیسے ہی رشتہ قانونی ہوتا ہے، اس کا اخلاقی اقدار سے تعلق ختم ہوجاتا ہے۔
کوئی رشتہ بیک وقت اخلاقی اور قانونی نہیں ہو سکتا۔
اخلاقی اور قانونی رشتوں کی نوعیت
اخلاقی رشتے خونی تعلقات اور ہمسائیگی میں زیادہ مضبوط ہوتے ہیں، اور انہی سے اچھی معاشرت جنم لیتی ہے۔
قانونی رشتے جب معاشرت میں غالب آ جائیں تو معاشرت ختم ہو کر ریاست میں ضم ہوجاتی ہے۔
اخلاقی معاشرے میں اقدار اور کردار اہم ہوتے ہیں، جبکہ قانونی معاشرے میں قوانین کی نگرانی اور ریاستی نظر ہر جگہ موجود ہوتی ہے۔
جدید قانون سازی اور انسانی حقوق
نئے حقوق کا تعارف
جدید قوانین صرف موجودہ حقوق کا تحفظ نہیں کرتے بلکہ نئے حقوق "گھڑتے” ہیں اور انہیں ریاستی طاقت سے نافذ کرتے ہیں۔
یہ حقوق زیادہ تر معاشی ضروریات کے تحت تخلیق کیے جاتے ہیں، نہ کہ اخلاقی اقدار کے تحت۔
سرمایہ داری نظام اور انسانی رشتے
مغربی قانون سازی کا مقصد مذہبی یا خاندانی رشتوں کا خاتمہ تھا تاکہ سرمایہ داری کے لیے مفید انفرادی رشتے پیدا کیے جا سکیں۔
خاندان کو ختم کر کے فرد کو ریاست کے تابع کر دینا سرمایہ داری کے لیے ضروری تھا۔
ازدواجی زندگی اور قانونی نظام
شادی کا اخلاقی اور قانونی پہلو
شادی کو نبھانا ایک اخلاقی عمل ہے، جبکہ اسے توڑنا قانونی عمل ہے۔
جدید مغربی معاشرت میں ازدواجی قوانین اس حد تک بڑھ گئے کہ شادی کا اخلاقی پہلو ختم ہو گیا اور محض قانونی معاہدہ بن کر رہ گئی۔
خاندان کا خاتمہ اور ریاستی کنٹرول
مغرب میں ازدواجی قوانین کی مدد سے خاندان ختم ہو چکا ہے:
- عورت کو بچوں کی پرورش کے لیے شادی کی ضرورت نہیں رہی۔
- شادی صرف اختیاری اور وقتی خوش طبعی کا ذریعہ بن گئی ہے۔
مذہب، قانون اور جدید ریاست
جدید ریاست کا مذہب سے لاتعلقی
جدید ریاست مذہب کے خلاف کوئی خاص دشمنی نہیں رکھتی بلکہ اسے اتنی اہمیت بھی نہیں دیتی کہ اس کے خلاف قوانین بنائے۔
جدید قانون سازی کا اصل مقصد معاشرتی رشتوں کو ختم کر کے معاشرے کو ریاست کے تابع کرنا ہے، جس سے مذہب خود بخود غیر متعلق ہوجاتا ہے۔
علمائے دین کی غلط فہمی
علماء قانون سازی میں مذہبی اور غیر مذہبی بحث چھیڑ کر اصل مسائل سے توجہ ہٹا دیتے ہیں۔
جدید ریاست مذہب کے احترام کا دعویٰ تو کرتی ہے لیکن قانون سازی اس طرح کرتی ہے کہ مذہب کی بنیادیں ہی ختم ہو جاتی ہیں۔
جدید قانون سازی اور معاشی دباؤ
جدید قوانین سرمایہ دارانہ نظام کے لیے راہ ہموار کرتے ہیں۔
نسوانی حقوق اور ازدواجی قوانین بھی اسی مقصد کے تحت نافذ کیے گئے تاکہ خاندانی نظام ختم ہو کر فرد ریاست کے ماتحت ہو جائے۔
علماء کی محدود بصیرت
علماء قانون کے حوالے سے بہت بات کرتے ہیں لیکن اس طاقت کے نظام کا ذکر نہیں کرتے جو قوانین بناتی ہے۔
قانون اس طاقت کا نتیجہ ہوتا ہے، اس لیے جب تک طاقت کا نظام تبدیل نہیں ہوگا، قانون بھی عدل و انصاف پر مبنی نہیں ہو سکتا۔
اسلامی قوانین اور جدید سیاسی نظام
اسلامی قوانین کو صرف اس وقت مؤثر بنایا جا سکتا ہے جب موجودہ سیاسی اور معاشی نظام کو تبدیل کر کے عادلانہ نظام قائم کیا جائے۔
محض حدود و تعزیرات کے نفاذ سے شرعی عدل کا حصول ممکن نہیں جب تک طاقت کا منبع انصاف پر مبنی نہ ہو۔
نتیجہ
مذہب کو زندہ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم پہلے سیاسی اور معاشی انصاف کی بات کریں، کیونکہ قانون بذات خود ضمنی چیز ہے جو طاقتور قوتوں کے زیر اثر بنتا ہے۔