“جیسا معاشرہ ویسا اسلام” کا مفروضہ
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اسلام نے عرب معاشرت کو اپنے احکامات کے لیے بنیادی مواد کے طور پر استعمال کیا۔ عربوں میں جو خرابیاں تھیں، اسلام نے صرف ان کی اصلاح کی اور باقی کو ویسے ہی برقرار رکھا یا نظرانداز کردیا۔ اس نظریے کی بنیاد پر یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام کے احکامات صرف اس مخصوص وقت اور ماحول کے لیے تھے، اور موجودہ دور کے حالات کے مطابق ان میں تبدیلی کی جا سکتی ہے۔
اس مفروضے کے تحت دعوے
اس مفروضے کے تحت یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ:
- چونکہ عرب معاشرے میں خواتین گھروں میں رہتی تھیں اور مرد کمانے کے ذمہ دار تھے، اس لیے اسلام نے نان نفقے کی ذمہ داری مرد پر ڈال دی۔
- اسی بنیاد پر طلاق کا حق بھی مرد کو دیا گیا۔
- لیکن اگر آج کے معاشرے میں خواتین بھی کما رہی ہیں تو طلاق کے معاملے میں مرد و عورت کو برابر حقوق ملنے چاہئیں۔
- اسی طرح، یہ دلیل حدود کے احکامات پر بھی دی جاتی ہے کہ ان کا اطلاق جدید دور کے سماج پر ویسا نہیں ہونا چاہیے جیسا پہلے تھا۔
اس نظریے کی خامیاں
یہ استدلال کئی غلط مفروضات پر مبنی ہے، جن کی نشاندہی ضروری ہے:
1. احکامات کی بنیاد معاشرتی حالات نہیں
اسلامی احکامات کے لیے یہ دعویٰ کہ وہ صرف معاشرتی حالات کو دیکھ کر نازل کیے گئے، کسی واضح نصوص سے ثابت نہیں۔
- عقل کے لحاظ سے یہ اتنا ہی ممکن ہے کہ احکامات مخصوص معاشرتی نظام بنانے کے لیے نازل ہوئے ہوں نہ کہ پہلے سے موجود عرب تمدن کے مطابق۔
- اللہ تعالیٰ نے اپنے احکامات ایک ایسی انفرادیت قائم کرنے کے لیے دئیے جو ابدی اور ہر معاشرت میں قابلِ عمل ہو۔
2. اجتہاد کی حد بندی کا کوئی واضح اصول نہیں
اگر اسلامی احکامات کو معاشرتی حقائق کے مطابق تبدیل کیا جائے تو یہ اجتہاد کہاں تک محدود ہوگا؟
- اگر طلاق میں مساوات کا اصول اختیار کرنا ہے تو پھر نکاح کے بارے میں بھی یہی سوال اٹھے گا۔
- یہ کیوں نہ کہا جائے کہ نکاح بھی عرب معاشرے کی روایات کا حصہ تھا، اس لیے شریعت نے اسے تسلیم کر لیا؟
- آج کے دور میں ڈی این اے کے ذریعے نسب کی تصدیق ممکن ہے، تو نکاح کو کیوں ضروری قرار دیا جائے؟
ایسے سوالات کا جواب اس نظریے کے تحت دینا ممکن نہیں، اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اسلام صرف ماضی کے لوگوں کے لیے تھا۔
3. یکطرفہ استدلال
یہ نظریہ صرف ان احکامات کو بدلنے کی بات کرتا ہے جو بعض افراد کے نزدیک جدید سماج میں “نامناسب” ہیں، لیکن اس کے منطقی نتائج کو نظرانداز کرتا ہے۔
- اگر طلاق میں مساوات ہونی چاہیے تو پھر مرد پر نان نفقے کی ذمہ داری بھی ختم ہونی چاہیے۔
- لیکن اس کا ذکر نہیں کیا جاتا، کیونکہ اس سے عورت پر بھی ذمہ داری عائد ہو جائے گی۔
- کیا مرد صرف اس لیے ذمہ داری اٹھاتا رہے کہ جدید سماج میں اس کا استحصال ہو؟
اصل حقیقت: عرب تمدن یا انبیاء کی تعلیمات؟
اسلام نے عربوں کی تمدنی روایات کو بطور خام مواد استعمال نہیں کیا، بلکہ انبیاء کی تعلیمات کے تسلسل کو برقرار رکھا۔
- جو چیزیں انبیاء کی تعلیمات سے مطابقت رکھتی تھیں، انہیں برقرار رکھا گیا۔
- جن چیزوں میں بگاڑ آچکا تھا، ان کی اصلاح کی گئی۔
اس لیے اسلام کو کوئی نیا مذہب نہیں کہا جا سکتا بلکہ یہ انبیاء کے دین کا تسلسل ہے، اور اس کے احکامات وقتی یا محدود نہیں بلکہ دائمی ہیں۔
نتیجہ
اسلام کے احکامات عرب تمدن سے متاثر نہیں بلکہ وحی الٰہی کا حصہ ہیں، جو ہر زمانے اور معاشرت میں قابلِ عمل ہیں۔ اس لیے ان میں تبدیلی کا اختیار انسانوں کے پاس نہیں، اور اجتہاد کے نام پر ان بنیادی احکامات کو معطل کرنا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔