سعودی علماء اور مسئلہ تقلید
تحریر: حافظ محمد اسحاق زاھد، کویت

سعودی عرب کے علماء ومشائخ سلفی مسلک کے حامل ہیں، اور اسی کی طرف وہ تمام لوگوں کو دعوت دیتے ہیں، فروع اور اختلانی مسائل میں دلیل کی پیروی یعنی اتباع کرنا ان کا مسلک ہے، نہ کہ اندی تقلید کرنا، دلیل کے سامنے خواہ وہ حنبلی مذہب کے موافق ہو یا مخالف، سر تسلیم خم کر دینا ان کا شیوہ ہے، چنانچہ سعودی علماء کے فتاوی اور رسائل پڑھ کے دیکھ لیجئے، ان میں ایک چیز انتہائی واضح طور پر نظر آتی ہے کہ یہ علماء ہر مسئلے میں سب سے پہلے قرآنی آیت، پھر حدیث نبوی اور پھر آثارصحابہ رضی اللہ عنہم ذکر کرتے ہیں، اور اگر کسی مسئلہ میں انہیں یہ تینوں دلائل نہ ملیں تو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور دیگر ائمہ کی آراء ذکر کرتے ہیں، اور ان میں جو أقرب الی الدلیل ہو اسے ترجیح ریتے ہیں۔ اب اس سے پہلے کہ ہم تقلید سے متعلق سعودی علماء کا موقف بیان کریں، ان کے بارے میں خود ایک سعودی عالم الشیخ عبدالمحسن العباد کی شہادت پڑھ لیجئیے جو عرصہ دراز سے مسجد نبوی میں درس حدیث ریتے ہیں اور سعودیہ کے بڑے بڑے مشائخ کے شاگرد ہیں۔ انہوں نے یوسین ہاشم الرفاعی کے ایک مضمون کے جواب میں ایک مقالہ تحریر فرمایا جو کہ ”الفرقان“ (الکویت) میں قسط وار چھپ رہا ہے، الرفاعی کے ایک اعتراض کے جواب میں شیخ العباد لکھتے ہیں :
وعلى هذا فهم لم يتخلوا عن المذهب الحنبلى، ولكنهم تخلوا عن التعصب له، وإذا وجد الدليل الصحيح على خلاف المذهب صاروا إلى ما دل عليه الدليل .
”یعنی علماء نجد نے حنبلی مذہب کو نہیں، اس کے لئے تعصب کو خیرباد کہہ دیا ہے اور جب صحیح دلیل مذہب حنبلی کے خلاف ہو تو وہ دلیل پر عمل کرتے ہیں۔ (دیکھیے الفرقان جولایہ 2000ء)
اب آئیے! سعودی علماء کا تقلید کے متعلق موقف معلوم کریں :

(1) شیخ ابن باز رحمہ اللہ :

شیخ ابن باز رحمہ اللہ، جن کا مئی 99 میں انتقال ہوا ہے، کسی تعارف کے مختاج نہیں، موصوف عالم اسلام کی معروف شخصیت تھے، علم و عمل، تقوی و پرہیزگاری اور بصیرت کے پہاڑ تھے، پوری زندگی دین اسلام کی خدمت میں گزار گئے، زندگی میں انہیں جو عزت و احترام ملا وہ بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے، انتقال فرمایا تو بیس لاکھ کے قریب افراد نے حرم مکی میں ان کی نماز جنازہ میں شرکت کی، اللہ رب العزت انہیں غریق رحمت فرمائے۔

موصوف اپنے متعلق خود فرماتے ہیں :
مذهبي فى الفقه هو مذهب الإمام أحمد بن حنبل رحمه الله، وليس على سبيل التقليد ولكن على سبيل الاتباع …..أما فى مسائل الخلاف فمنهجى فيها هو ترجيح ما يقتضى الدليل ترجيحه، والفتوى بذلك، سواء وافق مذهب الحنابلة أم خالفه، لأن الحق أحق بالاتباع (فتاوى المرأة المسلمة 14/1 )
”فقہ میں میرا مذہب امام احمد بن حنبل کا مذہب ہے، برسبیل تقلید نہیں، بلکہ برسبیل اتباع . . . . اور اختلافی مسائل میں میرا طریق یہ ہے کہ میں دلیل کے مطابق ترجیح دیتا ہوں، اور اسی طرح فتویٰ بھی صادر کرتا ہوں، خواہ دلیل حنبلی مذہب کے موفق ہو یا مخالف، کیونکہ حق پیروی کا زیادہ حقدار ہے۔ “

شیخ ابن باز رحمہ اللہ کے یہ الفاظ ليس على سبيل التقليد ولكن على سبيل الاتباع سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں، اور پھر ان کا یہ کہنا کہ اختلافی مسائل میں وہ حنبلی مسلک کی پابندی نہیں کرتے بلکہ دلیل کے مطابق ترجیح دیتے ہیں، اس بات کی واضح دلیل سے کہ وہ فقہ میں امام احمد رحمہ اللہ کے مذہب کی طرف نسبت کرنے کے باوجود حنبلی فقہ کی اندھی تقلید نہیں کرتے، بلکہ تقاضائے دلیل کے مطابق فتویٰ صادر فرماتے ہیں، اور اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں یہاں صرف ایک مثال ان کے اس مؤقف کی تصدیق کے لئے پیش کرتے ہیں :

شیخ سے سوال کیا گیا کہ کیا جمعہ قائم کرنے کے لئے چالیس ایسے افراد کا ہونا ضروری سے جن پر نماز فرض ہو ؟
شیخ صاحب نے جواب فرمایا :
”اہل علم کی ایک جماعت اس شرط کی قائل ہے کہ نماز جمعہ کی اقامت کے لئے چالیس آدمی ہونے چاہئیں، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ بھی انہیں میں سے ہیں، لیکن راجح تر قول تو یہی ہے کہ چالیس سے کم افراد کے لئے جمعہ کی اقامت جائز ہے . . . . کیونکہ چالیس آدمیوں کی شرط کے لئے کوئی دلیل موجود نہیں ہے، اور جس حدیث میں چالیس آدمیوں کی شرط آئی ہے وہ ضعیف ہے۔ “ (فتاويٰ سماحة الشيخ عبد العزيز بن باز ص 74) نیز (مجموع فتاوي و مقالات متنوعة ص 327/12)

کیا اس دور کے احناف مقلدین میں سے کوئی ہے جو شیخ ابن باز رحمہ اللہ جیسی اس جرات کا مظاہرہ کرے اور جب صحیح دلیل حنفی مسلک کے مخالف ہو تو اس کی تاویل کرنے یا اس کے مقابلے میں دوسری ضعیف دلیل لانے کی بجائے، اس صحیح دلیل کے سامنے سر تسلیم خم کر دے اور حنفی مسلک کو چھوڑ دے ؟ ہم نے تو اس کے برعکس یہ دیکھا سے کہ احناف مقلدین صحیح دلیل معلوم کرنے کے باوجود اپنے مذہب کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہوتے، آئیے آپ بھی دو مثالیں ملاحظہ کر لیں :

(1) الحق والإنصاف أن الترجيح للشافعي فى هذه المسألة، ونحن مقلدون يجب علينا تقليد إمامنا أبى حنيفة . (تقریر ترمذی، ص 39)
ترجمہ : ”حق اور انصاف یہ ہے کہ اس مسئلہ میں شافعی مسلک کو ترجیح ہے، لیکن ہم مقلد ہیں،ہم پر واجب ہے کہ ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہی کی تقلید کریں۔ “

(2) ابن نجیم الحنفی کہتے ہیں :
نفس المؤمن تميل إلى قول المخالف فى مسألة السبب، لكن إتباعنا للمذهب واجب . (البحر الرائق : 125/5)
ترجمہ : ”مومن کا دل قول مخالف کی طرف مائل ہوتا ہے گالی کے مسئلے میں، لیکن حنفی مذہب کی اتباع واجب ہے۔“

شیخ ابن باز رحمہ اللہ ایک اور جگہ پر فر ماتے ہیں :
كل قول يخالف الادلة الشرعية يجب أن يطرح ولا يعول عليه لقول الله عز وجل ﴿فان تنازعتم فى شيئ فردوه الي الله والرسول ان كنتم تؤمنوں بالله واليوم الاخر ذلك خير واحسن تاويلا﴾ وقوله ﴿وما اختلفتم فيه من شيئ فحكمه الي الله﴾ (فتاوي مهمة تتعلق بالصلاة ص58)
ترجمہ : ”ہر ایسا قول جو شرعی دلائل سے ٹکراتا ہو، اسے ٹھکرا دینا واجب ہے، کیونکہ فرمان الہی ہے : ”پھر اگر تم کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹاؤ، اگر تمہیں اللہ اور آخرت کے دن پر یقین ہے۔ یہ بہت بہتر اور انجام کے اعتبار سے بہت اچھا ہے“ اور فرمایا : ”اور جس جس چیز میں تمہارا اختلاف ہو اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف ہے۔““

شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے وجوب العمل بسنة الرسول صلى الله عليه وسلم وكفر من أنكرها کے عنوان سے ایک مقالہ لکھا ہے، جس میں ایک جگہ پر وہ لکھتے ہیں :
”اور جب حج تمتع کے مسئلے میں کچھ لوگوں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو یہ دلیل دی کہ سیدنا ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما حج افراد کے قائل ہیں، تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : عین ممکن ہے کہ تم پر آسمان سے پتھر برسنا شروع ہو جائیں، میں کہتا ہوں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا ہے اور تم کہتے ہو کہ ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما نے یوں فرمایا ہے۔“

اس کے بعد شیخ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فإذا كان من خالف السنة لقول أبى بكر و عمر تخشي عليه العقوبة فكيف بحال من خالفها لقول من دونهما، أو لمجرد رأيه واجتهاده (مجموع فتاوي ومقالات متنوعة : ص99)
”اگر ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کے قول کی بنا پر سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرنے کی وجہ سے عذاب نازل ہونے کا اندیشہ ہو سکتا ہے تو اس شخص کا کیا حال ہوتا جو ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے کم تر کسی اور کے قول یا اس کے مذہب یا اس کے اجتہاد کی بناء پر سنت نبویہ کی مخالفت کرتا ہو ؟“

شیخ رحمہ اللہ کا یہ فرمان بھی بالکل واضح ہے کہ ”ان کے نزدیک کسی کے ایسے مذہب یا اجتہاد کی کوئی اہمیت نہیں جو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ٹکراتا ہو، چاہے وہ اجتہاد کسی امام کا ہو یا کسی بزرگ کا۔“

تو سعودی علماء ومشائخ کو اپنا ہم نوا بنانے والے احناف مقلدین کو سوچنا چاہئے کہ سعودی علماء تو اندھی تقلید کے قطعاً قائل نہیں اور جب شرعی دلیل حنبلی مذہب کے خلاف ہو تو وہ شرعی دلیل ہی کو فوقیت دیتے ہیں، اور ہر ایسے مذہب کو ٹھکرا دیتے ہیں جو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ٹکراتا ہو، جبکہ احناف مقلدین کا رویہ اس کے بالکل برعکس ہے، چنانچہ حنفی مسلک کے مخالف دلائل کے ساتھ وہ جو انتہائی غیر منصفانہ سلوک کرتے ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں، لہذا سعودی علماء کے مسلک کو حنفی مسلک کے مماثل قرار دینا کیسے درست ہو سکتا ہے ؟

(2) الشیخ ابن عیثمین حفظہ اللہ تعالیٰ

موصوف الشیخ عبدالرحمٰن السعدی رحمہ اللہ اور الشیخ ابن باز رحمہ اللہ کے شاگرد ہیں، اس وقت قصیم میں كلية الشريعه واصول الدين میں استاذ ہیں اور متعدد کتابوں کے مؤلف ہیں اور اہل علم میں بہت بڑا مقام رکھتے ہیں، فتویٰ میں الشیخ ابن باز رحمہ اللہ کے بعد ان کا نمبر آتا ہے، اسی لئے موصوف چوبیس گھنٹے طالب علموں اور مشائخ کے گھیرے میں رہتے ہیں۔ موصوف کا تقلید کے متعلق کیا موقف ہے، آیئے ان کا یہ فتوی ملاحظہ کریں :

ان سے سوال کیا گیا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب پڑھانے والے مدرس کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے ؟ تو الشیخ ابن عثیمین نے فرمایا :
”اس میں کوئی شک نہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب ان چار مذاہب میں سے ہے جو مشہور ہیں اور ان کی پیروی کی جاتی ہے، لیکن یہ بات جان لینی چاہیے کہ حق انہیں چار مذاہب میں منحصر نہیں، بلکہ حق کسی اور مذہب میں بھی ہو سکتا ہے، اور انہی چاروں ائمہ کا کسی مسئلہ میں اتفاق پوری امت کا اجماع قرار نہیں پا سکتا، اور خود ان ائمہ کو اپنا مقام و مرتبہ معلوم تھا، اور انہیں اس بات پر یقین تھا کہ ان کی اطاعت اسی مسئلے میں ہو سکتی ہے جو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے موافق ہو، اسی لئے وہ اپنی تقلید سے منع کیا کرتے تھے، الا یہ کہ ان کا مذہب سنت کے موافق ہو۔“

اس کے بعد شیخ فرماتے ہیں :
ولا ريب أن مذهب الإمام أبى حنيفه ومزهب الإمام أحمد ومزهب الإمام الشافعي ومزهب الإمام مالك وغير هم من أهل العلم قابلة أن تكون خطأ وصوابا فإن كل أحد يئوخذ منن قوله ويترك إلا رسول الله صلى الله عليه وسلم، وعلي هذا فإنه لا حرج عليه أن يفقه تلامذته على مذهب الإمام أبى حنيفه، بشرط إذا تبين له الدليل بخلافه تبع الدليل وتركه، ووضح لطلبته إن هذا هو الحق وإن هذا هو الواجب عليهم (مجموع فتاوي ورسائل الشيخ ابن عشيمين : 28/1)
”اور اس میں کوئی شک نہیں کہ امام ابو حنیفہ، امام احمد، امام الشافعی، امام مالک رحمہم اللہ اور ان کے علاوہ دیگر اہل علم کا مذہب غلط بھی ہو سکتا ہے اور درست بھی، اور ہر ایک کے قول کو لیا بھی جا سکتا ہے اور چھوڑا بھی جا سکتا ہے سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے، کہ ان کا ہر فرمان واجب الاتباع ہے، لہذا اس مدرس پر کوئی حرج نہیں کہ وہ اپنے شاگردوں کو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی فقہ پڑھائے، لیکن شرط یہ ہے کہ جب اسے اس کے خلاف دلیل مل جائے تو وہ اسی کی پیروی کرے اور ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی رائے کو چھوڑ دے، اور اپنے طالب علموں کو بتائے کہ دلیل ہی حق ہے، اور ان کے لئے بھی یہی لازم ہے کہ وہ ایسی صورتحال میں صرف دلیل پر عمل کریں اور جب دونوں کا آپس میں ٹکراؤ ہو تو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مسلک چھوڑ دیں۔“

تو مقلدین بتائیں کہ کیا وہ اور دیگر احناف مقلدین اپنے اپنے مدارس میں اپنے شاگردوں کو سعودی عالم دین الشیخ ابن عثیمیں کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق حنفی فقہ پڑھاتے ہیں ؟
اگر جواب ہاں میں ہے تو بہت اچھی بات ہے لیکن اس کے لئے عملی دلیل مطلوب ہے اور اگر جواب نہیں میں ہے تو ان کے اس دعوے کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے کہ احناف مقلدین کا مسلک سعودی عرب کے علماء و مشائخ کے مسلک کے مماثل ہے ؟ جبکہ ہم نے معاملہ اس کے برعکس دیکھا ہے، کیونکہ دیوبندی مدارس میں آج بھی ابتدائی چار پانچ سال کے دوران طالب علموں کو حنفی فقہ پڑھائی بلکہ اسی کے مطابق ان کی ذہن سازی کی جاتی ہے اور آخری سال دورہ حدیث تبرکاً کرا دیا جاتا ہے، اور ایک ہی سال میں صحاح ستہ اور کئی اور حدیث کی کتب قراءۃ پڑھا دی جاتی ہیں، اور اس دوران جب حنفی مسلک سے ٹکرانے والی احادیث سامنے آتی ہیں تو ان پر لمبی لمبی تقریریں لکھوائی جاتی ہیں، اور صحیح احادیث کی ناجائز تاویلیں کر کے یا ان کے مقابلے میں کمزور قسم کی حدیثیں ذکر کر کے انہیں ٹھکرا دیا جاتا ہے، نسأل الله العفو والعافية

قارئین کرام ! تقلید کے متعلق سعودی عرب کے ان علماء کا موقف معلوم کر لینے کے بعد آپ خود فیصلہ کریں کہ حنفی دیو بندی مسلک کی اس سے کیا وجہ مماثلت باقی رہ جاتی ہے ؟

(1) حنفی مقلدین، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور حنفی علماء کی اندھی تقلید کرتے ہیں، جب کہ سعودی علماء ایسا نہیں کرتے۔
(2) احناف مقلدین کو جب حنفی مسلک کے خلاف کوئی صحیح دلیل معلوم ہوتی ہے تو اسے منسوخ تصور کر لیتے ہیں، یا اس کی غیر معتبر تاویل کر لیتے ہیں، یا اس کے مقابلے میں کمزور دلیل کو ترجیح دیتے ہیں، جب کہ سعودی علماء قطعا ایسا نہیں کرتے اور دلیل کے سامنے اپنے آپ کو جھکا دیتے ہیں۔
(3) احناف مقلدین مذاہب اربعہ میں حق کو منحصر سمجھتے ہیں، وہ بھی اگر کوئی منصف مقلد ہو تو، ورنہ ان کے نزدیک فقہ حنفی ہی حق ہے اور باقی سب کچھ باطل، جبکہ سعودی علماء کا موقف اس کے برعکس ہے، اور ان کے نزدیک حق مذاہب اربعہ سے باہر بھی ہو سکتا ہے۔

(4) سعودی علماء کا ایک وسیع حلقہ دروس ہے، جن میں وہ اپنے شاگردوں کو براہ راست حدیث کی کتب پڑھاتے ہیں، اور اگر فقہ کی کتابیں پڑھاتے بھی ہیں تو اتباع دلیل کی پابندی کرتے ہوئے قطع نظر اس کے کہ دلیل حنبلی فقہ کے موافق ہے یا مخالف، جب کہ دیو بندی مقلدین ایسا ہر گز نہیں کرتے۔

ان وجوہات کی بناء پر ہم مقلدین کو مشورہ دیتے ہی کہ وہ سعودی علماء کے مسلک سے مماثلت کا دعوی نہ کریں، اور اگر انہیں اس کا شوق ہے تو پھر کھوکھلے دعووں کی بجائے عملی طور پر سعودی علماء کا انداز اپنائیں، ان کا منہج اختیار کریں۔ اور پر تعصب تقلید کے بندھن سے اپنے آپ کو آزاد کریں۔

ایک مقلد رنگونی صاحب تقلید پر بحث کے ضمن میں لکھتے ہیں :
”غیر مقلدین کے نزدیک جس طرح امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید میں احناف مجرم ہیں اسی طرح حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی تقلید کے جرم میں سعودی عرب کے ”ائمہ و مشائخ بھی بہت بڑے گناہگار ہیں۔“

ایک بات اچھی طرح سے سمجھ لینی چاہئیے کہ ہمارے ہاں برصغیر پاک و ہند میں تقلید کا جو انداز ہے کہ حنفی مسلک کے خلاف کوئی بات گوارا ہی نہیں کی جاتی اور اسے برحق ثابت کرنے کی اس طرح سر توڑ کوشش کی جاتی ہے کہ گویا وہ آسمانی وحی ہے، تو یہ انداز سعودی عرب میں خصوصاً اور باقی عرب ممالک یں عموماً نہیں پایا جاتا، برصغیر کے مقلدین تو اہلحدیثوں کو نیچا دکھانے کے لئے قرانی آیات اور احادیث نبویہ میں تحریف تک سے گریز نہیں کرتے، تو ایسی اندھی تقلید کو ہم یقینی طور پر ایک جرم تصور کرتے ہیں، کیونکہ شریعت نے ہمیں کسی امام کی پیروی کرنے کا پابند نہیں کیا، بلکہ صرف اور صرف دلیل شرعی کی پابندی کرنے کا حکم دیا ہے، چاہے وہ دلیل کسی امام کے مسلک کی موافق ہو یا مخالف، اور جب سعودی عرب کے علماء کے متعلق یہ معلوم ہو چکا کہ وہ ایسی اندھی تقلید کے ہرگز قائل نہیں، اور ان کا مسلک اتباع دلیل ہے تو ہمارے نزدیک ان کا یہ عمل جرم نہیں، بلکہ بلکل درست ہے، اور ہم اپنے احناف بھائیوں کو بھی اسی بات کی طرف دعوت دیتے ہیں کہ وہ بھی اتباع دلیل کا طریقہ کار اختیار کر لیں اور تعصب مذہبی کو خیر باد کہہ دیں۔

(3) شیخ بکر ابو زید حفظہ اللہ

موصوف سعودی عرب میں کبار علماء پر مشتمل رکن ہیں اور بیسیویں کتابوں کے مؤلف ہیں جو کہ فصاحت بیان اور قوت علم کے اعتبار سے اہل علم میں ایک اونچا مقام رکھتی ہیں، دینی علوم میں انتہائی گہرا مطالعہ رکھتے ہیں اور کسی مسئلے پر بحث کرتے ہیں تو معلومات کا ڈھیر لگا دیتے ہیں، انہوں نے فرقہ پرستی اور دینی جماعتوں کے متعلق بھی ایک کتاب تصنیف کی ہے جس کا نام ہے حكم الانتما إلى الفرق والأحزاب ولجماعات الاسلاميه اس کے صفحہ 33 پر رقمطراز ہیں :

”اور میں نے تمام دینی نسبتوں میں غور ور فکر کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ سب کی سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے زمانے کے بعد کافی تاخیر سے وجود میں آئیں، چاہے یہ نسبتیں سیاسی تھیں اور انہوں نے دین کا لبادہ اوڑھ لیا مثلا خوارج، شیعہ، قدریہ اور مرجئہ، یا عقائدی تھیں مثلاً معتزلہ، اشاعرہ اور ماتریدیہ، یا سلوکی تھیں مثلا صوفیائے کرام اور ان کے تمام گروہ یا فروع میں تعصب کرنے والی تھیں، مثلاً حنیفہ، مالکیہ، شافیعہ، حنبلیہ اور ظاہریہ۔“

پھر ان متعصب فرقوں کے متعلق بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”اور غلطی ائمہ اربعہ کی نہیں، وہ تو اس سے بری ہیں اور ان میں سے ہر ایک نے اپنی تقلید کرنے سے منع کیا ہے اور جب ان کی رائے حدیث سے ٹکراتی ہو تو انہوں نے حدیث پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے۔ تو ائمہ اربعہ اور ان سے پہلے اور ان کے بعد آنے والے علماء اسلام کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی حفاظت کی، اور ایسے علماء پر طعن کرنا واضع گمراہی ہے، لیکن غلطی اس شخص کی ہے جس نے ان میں غلو کیا، اور مذہبی تعصب کا شکار ہو گیا، جس کی وجہ سے فتنے واقع ہوئے، محنتیں ضائع ہو گئیں اور زبان و کلام کی جنگیں چھڑ گئی، بلکہ معاملہ اس سے بھی آگے بڑھ گیا اور دین میں وہ چیز حاصل کر دی گئی جو اس سے ہے نہیں، مثلاً حنفی اور شافعی کے درمیان مناکحت کو حرام قرار دے دیا گیا، اور ان کے پیچھے نماز باطل قرار دے دی گئی، بلکہ اس سے بڑھ کر یہ ہوا کہ خونی جنگیں ہوئیں، جیسا کہ احناف اور شافعہ کے درمیان ”اصفہان“ اور ”الری“ میں ہوا اور اس طرح ان فرقوں پر ایک سیاہ دھبہ لگ گیا، حلانکہ اسلام ایسے تعصب سے لاتعلق ہے، اور سلف امت صحابہ کرام و تابعین رضی اللہ عنہم اس احمقانہ فرقہ پرستی سے بری ہیں۔“

پھر آگے چل کر لکھتے ہیں :
”ان فرقوں کے پیدا ہونے سے پہلے مسلمانوں کا کوئی اور نام یا لقب نہیں تھا, کیونکہ وہ صرف اور صرف اسلام ہی کی نمائندگی کرتے تھے، لیکن جب یہ گمراہ فرقے ظاہر ہوئے, جن پر أهل الاهواه ، أهل البدع اور أهل الشبهات کے القاب صادق آتے ہیں، تو چونکہ یہ بھی اسلام ہی کی طرف اپنی نسبت کرتے تھے، اس لیے مسلمانوں کے چند امتیازی نام اور القاب سامنے آئے تاکہ وہ ان گمراہ فرقوں سے اپنے آپ کو الگ رکھ سکیں اور ان کے درمیان فرق ہو سکے، یہ نام اور القاب یا تو اصولاً شریعت میں ثابت شدہ تھے، مثلاً الجماعة، جماعت المسلمين ، الفرقة الناجية اور الطائفة المنصورة ، یا اہل بدعت کے مقابلے میں سنن رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پابندی کرنے کی وجہ معرض وجود میں آئے, مثلاً السف ، أهل الحديث , أهل الاثر اور اهل السنة والجماعة اور یہ معزز القاب دوسرے تمام فرقوں کے القاب سے کئی وجوہات کی بنا پر مختلف ہیں۔“

پھر شیخ بکر ابوزید حفظہ اللہ تعالیٰ نے ان وجوہات کو تفصیل سے ذکر کیا ہے، ہم یہاں پر اس کا خلاصہ بیان کرتے ہیں:
(1) امتِ مسلمہ جب سے منہاج نبوت پر تشکیل پائی ہے، تب سے یہ القاب اس سے الگ نہیں ہوئے، سو یہ بات سمجھ میں آ جانی چاہیے کہ ان القاب کے حامل لوگ تاریخ کے کسی خاص زمانے میں معروض وجود میں نہیں آئے بلکہ شروع سے چلے آ رہے ہیں، اور قیامت تک باقی رہیں گے، اور اهل حديث ہی طائفه منصوره ہیں جس کا ذکر اس حدیث نبوی میں آیا ہے : لا تزال طائفته من امتي منصورين، ولا يضرهم من خلفهم ولا من خذلهم
ترجمہ : ”میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا اور جو ان کی مخالفت کرے گا اور انہیں رسوا کرے گا وہ انہیں نقصان نہیں پہچا سکے گا۔“

(2) یہ القاب پورے اسلام یعنی کتاب و سنت کا احاطہ کیے ہوئے ہیں، اور کسی ایسے گروہ کے ساتھ خاص نہیں جو کتاب و سنت کی کم یا زیادہ مخالفت کرتا ہو۔

(3) ان القاب میں سے کچھ وہ ہیں جو صحیح احادیث سے ثابت ہیں اور کچھ ہیں وہ جو اھل الاھواء اور گمراہ فرقوں کے مقابلے میں سامنے آئے، تاکہ ان کے اور ان کے درمیان فرق ہو سکے، تو جب بدعات ظاہر ہوئیں تو انہوں نے ”سنت“ کو تھام لیا، اسی لیے اهل السنة کہلانے لگے, اور جب ائمہ کی آراء کو فیصل قرار دے دیا گیا تو انہوں نے حدیث و اثر کو مضبوطی سے پکڑ لیا, اور اسی لیے ان کو اهل الحديث، والأثر کہا جانے لگا۔

(4) ان القاب کے حامل لوگ صرف اسلام یعنی کتاب و سنت کی بنیاد پر دوستی اور دشمنی کرتے ہیں، کسی خاص گروہ یا نظرئیے کی بنیاد پر نہیں۔

(5) ان القاب کے حاملین صرف اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تعصب کرتے ہیں، کسی امام یا کسی خاص نظرئیے کے لئے نہیں۔

(6) اهل حديث ہی اهل السنة والجماعة ہیں : کیونکہ یہی لوگ ہیں جب بدعت کے مقابلے انہیں اهل السنة کہا گیا ہے اور مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہو جانے والے فرقوں کے مقابلے اهل السنة والجماعت کہا گیا اور چونکہ یہ لوگ سنن کا احترام کرتے ہیں اور ابتداع کے بجائے اتباع پر اکھٹے ہوتے ہیں، اور اتباع سنت ہی کی بنیاد پر تمام لوگوں کو اتفاق و اتحاد کی دعوت دیتے ہیں، تو ”اهل السنة والجماعة“ کے لقب کے حقیقی مستحق بھی یہی ہیں۔
مزید تفصیل لئے دیکھئے : (كتاب حكم الا نتماء الي الفرق والا حزاب جماعات الا سلاميته ص 33۔ 51 )

شیخ بکر ابوزید حفظہ اللہ کے مذکورہ اقتباسات کا خلاصہ کچھ یوں ہے :
(1) شروع میں مسلمان صرف اسلام کی نمائندگی کرتے تھے اور انکا کوئی اور نام یا لقب نہیں تھا۔

(2) پھر جب بدعات ظاہر ہوئیں، اور انہیں مسلمان میں سے کچھ لوگ سیاسی اسباب کی بناء پر اور کچھ فروعی اختلافات کی بناء پر فرقوں میں بٹ گئے، تو وہ لوگ جو اسلام کی صحیح نمائندگی کرتے تھے، ان کے چند القاب مثلاً، اهل الحديث، اهل الاثر، السلف، اهل السنة والجماعة سامنے آئے، تاکہ ان میں اور فرقوں میں بٹ جانے والے لوگوں میں فرق ہو سکے۔

(3) مذکورہ القاب کے حاملین اصل ہیں، ان کا منہج اتباع سنت ہے اور یہی اجتماع امت کے اصولوں کی پاسداری کرنے والے ہیں، اس لئے انہی کو اهل السنة والجماعة کہا گیا ہے اور آج بھی یہی اهل السنة والجماعة ہیں، اور فرقہ ناجیہ اور طائفہ منصورہ بھی یہی ہیں۔

(4) خود ائمہ اربعہ اهل الحديث اور اهل السنة والجماعة میں سے ہیں، کیونکہ انہوں نے اپنی تقلید کرنے سے منع فرمایا ہے اور اتباع و حدیث کا حکم دیا ہے، تو ان کے نام پر معرض وجود میں آنے والے متعصب فرقوں نے خود اپنے ائمہ کے طریق کار کی پاسداری نہیں کی، غلطی انہی فرقوں کی ہے، ائمہ کرام ان سے بری ہیں۔

(5) متعصب فرقے بعد کی پیداوار ہیں، ان سے پہلے لوگ اهل الحديث ہی تھے جو مقلد کی بجائے سنت کے پیروکار تھے۔

(4) شیخ محمد جمیل زینو حفظہ اللہ

موصوف عرصہ بیس سال سے دارالحدیث الخیریة مکة المکرمة میں پڑھا رہے ہیں، ان کی عمر 75 سال ہو چکی ہے، شروع میں نقشبندی، پھر شاذلی اور پھر قادری طریقے پر چلتے رہے، پھر تبلیغی جماعت کے ساتھ منسلک ہو گئے اور آخر میں اللہ تعالیٰ نے انہیں صراط مستقیم کی طرف ہدایت دی اور یہ اہل حدیث ہو گئے، 1400 ھ سے مکہ مکرمہ میں مدرس ہیں اور اس دوران اصلاح معاشرہ کے لئے بیسیوں اہم کتب لکھ چکے ہیں، جن کے متعدد زبانوں مین ترجمے بھی کئے گئے ہیں، اور انہیں مفت تقسیم کیا جا رہا ہے، ان کا تقلید کے متعلق کیا نظریہ ہے؟
آئیے ان کے چند اقتباسات ملاحظہ کریں، فرماتے ہیں:
فاهل الحديث حشرنا الله معهم، لايتعصبون لقول شخص معين مهما علا وسما، حاشا محمد صلى الله عليه واله وسلم بخلاف غيرهم ممن لاينتمي الى اهل الحديث والعمل به، فإنهم يتعصبون لاقوال أئمتهم وقد نهوهم عن ذلك، كما يتعصب اهل الحديث لاقوال نبيهم على نبينا الصلاة والسلام فلا عجب أن يكون أهل الحديث هم الطائفة المنصورة والفرقة الناجية . (مجموع رسائل التوجيهات الإسلامية : 164/1 )
ترجمہ : ’’سو اہل حدیث (اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن انہیں کے ساتھ اٹھائے) کسی خاص شخص کے قول کے لئے تعصب نہیں کرتے، چاہے وہ کتنا بڑا امام ہو، سوائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے، جبکہ وہ لوگ جو اہل حدیث کی طرف اپنی نسبت نہیں کرتے، وہ اپنے ائمہ کے اقوال کے لئے تعصب کرتے ہیں، حالانکہ ائمہ نے انہیں اس سے روکا ہے، اور اہل حدیث صرف اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کے لئے تعصب کرتے ہیں، اس لئے کوئی عجب نہیں کہ طائفہ منصورہ اور فرقہ ناجیہ یہی اہل حدیث ہوں۔“

ایک اور جگہ پر فرماتے ہیں:
كثير من الناس تقول له : قال الله، قال رسوله، فيقول: قال الشيخ ! ألم يسمعوا قوله تعاليٰ ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ﴾ أى لا تقدموا قول أحد على قول الله ورسوله، وقال ابن عباس: يوشك أن تنزل عليكم حجارة من السماء، أقول لكم: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، وتقولون: قال أبوبكر وعمر! (مجموعة رسائل التوجيهات الإسلامية : 237/1)
”بہت سارے لوگوں سے آپ جب کہتے ہیں: اللہ نے یوں فرمایا، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا، تو اس کے جواب میں وہ کہتے ہیں : شیخ (مولانا) نے یوں فرمایا ہے، تو کیا انہوں نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سنا : ”اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے نہ بڑھو“ یعنی کسی کے قول کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال پر فوقیت نہ دو، اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : ”عین ممکن ہے کہ تم پر آسمان سے پتھر برسنا شروع ہو جائیں، میں تم سے کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا ہے، اور تم کہتے ہو: ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے یوں کہا ہے۔“

شیخ محمد جمیل زینو کا ایک اور اقتباس بھی ملاحظہ کر لیجئے:
ونحن لم نؤمر إلا باتباع القرآن المنزل من عند الله،وقد شرحه لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم بأحاديثه الصحيحة، لقوله تعالى : ﴿اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ﴾ فلا يجوز لمسلم سمع حديثا صحيحا أن يرده لأنه مخالف لمذهبه، فقد أجمع الأئمة على الأخذ بالحديث الصحيح، وترك كل قول يخالفه (مجموع
رسائل التوجيهات الاسلامية :1/135)

”ہمیں صرف قرآن کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اترا ہوا ہے اور اس کی تفسیر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صحیح احادیث کے ذریعے فرما دی ہے، فرمان الہیٰ ہے: ترجمہ : ”تمھاری طرف تمھارے رب کی طرف سے جو کچھ اتارا گیا ہے، اسی کی پیروی کرو اور اسے چھوڑ کر اولیاء کی پیروی نہ کرو“ تو کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ صیح حدیث کو سن لے، پھر اسے اس لئے رد کر دے کہ وہ اس کے مذہب کے خلاف ہے، کیونکہ خود ائمہ کرام کا اس بات پر اجماع ہے کہ صحیح حدیث پر عمل کیا جائے اور اس سے ٹکرانے والا ہر قول و مذہب چھوڑ دیا جائے۔“

(5) شیخ سعود الشریم، امام و خطیب مسجد حرام

موصوف خانہ کعبہ المسجد الحرام کے امام و خطیب ہیں، اور مکہ مکرمہ میں ایک اعلیٰ عدالت کے جج ہیں، ان کے خطبوں کے تین مجموعے کتابی شکل میں چھپ چکے ہیں، دوسرا مجموعہ اس وقت ہمارے سامنے ہے، ان کا مسلک بتانے کے لئے اس مجمونے سے کچھ اقتباسات پیش کرنے سے پہلے ایک وضاحت کرنا ضروری ہے، اور وہ یہ ہے کہ رنگونی صاحب نے اپنی اس کتاب کے ذریعے بریلویوں کو پیغام دیا ہے کہ وہ ائمہ حرمین شریفین کے متعلق بدگمانی کا شکار نہ ہوں کیونکہ ان کا مسلک رنگونی صاحب کے نزدیک اہل حدیثوں کے مسلک سے بالکل الگ ہے اور دونوں میں کوئی مماثلت نہیں ہے!! حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے کیونکہ حرمین شریفین کے تمام ائمہ کرام اہلحدیث سلفی ہیں ہم اس کا ثبوت شیخ سعود الشریم کے مجموعہ خطبات سے پیش کریں گے جبکہ رنگونی صاحب نے اپنے موقف کا ائمہ حرمین سے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا، اور نہ وہ کر سکتے ہیں، کیونکہ وہ اپنے اس دعوے میں بالکل جھوٹے ہیں اور اس کے ذریعے وہ محض پروپیگنڈہ کرنا چاہتے ہیں تو آئے ائمہ حرمین کا مسلک معلوم کریں . . . . .

شیخ سعود الشریم فرماتے ہیں :
وأهل السنة والجماعة، الفرقة الناجية والطائفة المنصورة، استقر كتاب الله، وسنة رسوله صلى الله عليه وسلم فى سويداء قلو بهم فمراد الله و مراد رسوله صلى الله عليه وسلم عندهم قد خلدا بهذين الوحيين، فلا تعقيب لأحد بعد الله ورسوله
”اور اهل السنة والجماعة ، جو فرقہ ناجیہ اور طائفہ منصورہ ہیں، کے دلوں کی گہرائیوں میں قرآن و سنت قرار پا چکے ہیں، اس لئے وہ ہمیشہ فرمان الہیٰ اور فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انہیں دونوں وحیوں (قرآن و سنت) سے ہی حاصل کرتے ہیں، لہذا اللہ کے فرمان اور حدیث نبوی صلى اللہ علیہ وسلم کے بعد رائے زنی کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔“

اور اپنے اسی خطبے کے شروع میں فرماتے ہیں :
فاعلموا أيها الناس! إن الدين الاسلامى كغيره من الشرائع السماوية التى أرسل الله الرسل من أجلها، دين مبني على الاتباع والاقتداء والتأسى، ولا يصير الدين دينا إلا إذا كان الخضوع فيه للحق سبحانه، حيث أنه لا يفهم دين بلا خضوع ولا اتباع
”لوگو جان لو کہ دین اسلام دوسرے آسمانی دینوں کی طرح، جن کی وجہ سے اللہ نے رسولوں کو مبعوث فرمایا، ایسا دین ہے جو محض اتباع اور (اسوہ حسنہ) کی پیروی پر مبنی ہے، اور کوئی دین اس وقت تک دین نہیں ہوتا جب تک صرف اللہ کے سامنے اپنے آپ کو جھکا نہ دیا جائے، سو دین صرف اللہ کے سامنے جھکنے اور اتباع کا نام ہے۔“

ان دو اقتباسات سے درج ذیل باتیں معلوم ہوئیں :
(1) اهل السنة والجماعة کے دلوں میں صرف قرآن و سنت بستے ہیں کوئی تیسری چیز جو قرآن و سنت سے کراتی ہو، اس کی اهل السنة والجماعة کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں۔
(2) فرمان الہیٰ اور فرمان نبوی کے بعد کسی کی ذاتی رائے کوئی اہمیت نہیں رکھتی اور نہ ہی اس کی گنجائش دین میں چھوڑی گئی ہے۔
(3) دین محض دو چیزوں کا نام ہے، اللہ ہی کی عبادت اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع۔

اب رنگونی صاحب بتائیں کہ ائمہ حرمین کا مسلک اور عقیدہ، احناف مقلدین سے مماثلت رکھتا ہے یا اہل حدیثوں سے ؟

ائمہ حرمین کے مسلک کی اہل حدیثوں کے مسلک سے مماثلت کی ایک اور واضح دلیل ملاحظہ ہو، خطبوں کے اسی مجوعے کے شروع میں شیخ سعود الشریم نے متعدد مسائل جمعہ پر بھی بحث کی ہے، ان میں سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ کیا نماز جمعہ کے ساتھ عصر کی نماز کو بارش کی وجہ سے جمع کیا جا سکتا ہے؟ شیخ فرماتے ہیں:
بقى عندنا حكم الجمعة مع العصر للمطر، وقد جوز ذلك الشافعية كقولهم فى الظهر، بخلاف الأئمة الثلاثة، والصواب إن شاء الله هو ما اختاره الشافعية لوجود العلة المقتضية للجمع (وميض من الحرام : ص 18)
”اب یہ مسئلہ باقی ہے کہ کیا بارش کی وجہ سے جمعہ کے ساتھ عصر کی نماز بھی پڑھی جا سکتی ہے ؟ تو شافعیہ نے جس طرح ظہر و عصر کو جمع کرنے کی اجازت دی ہے، اسی طرح جمعہ و عصر کو جمع کرنے کی بھی اجازت دی ہے، جبکہ باقی تینوں ائمہ اس کے قائل نہیں اور ان شاء اللہ صحیح بات بھی وہی ہے جسے شافعیہ نے اختیار کیا ہے کیونکہ جمع کرنے کا سبب (بارش) یہاں بھی موجود ہے۔“

مسائل شرعیہ میں اس طریقہ بحث و تمحیص سے معلوم ہوا کہ ائمہ حرمین قطعاً مقلد نہیں، وہ تو محض دلیل کی اتباع کرتے ہیں، چاہے دلیل حنبلی مذہب کے موافق ہو یا مخالف، انہیں دلیل قبول کرنے میں ہرگز پس و پیش نہیں، اور یہ چیز احناف مقلدین میں موجود نہیں ہے۔

(6) شیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظ اللہ

شیخ الفوزان کا شمار سعودیہ کے کبار علماء میں ہوتا ہے، موصوف سعودیہ کی دائمی فتویٰ کمیٹی کے مستقل رکن ہیں اور کئی اہم کتابوں کے مولف ہیں شیخ تقلید کے متعلق لکھتے ہیں:
وكذلك يجب على أتباع المذاهب أن يردوا أقوال أئمتهم إلى الكتاب والسنة فما وافقها أخذوا به، وما خالفهاردوه دون تعصب أو تحيز (كتاب التوحيد ص 49)
”اور مذاہب کے پیروکاروں پر واجب ہے کہ وہ اپنے اماموں کے اقوال کو کتاب و سنت کی روشنی میں پرکھیں، پس جو قول کتاب و سنت کے موافق ہو اسے لے لیں اور جو ان کے مخالف ہو اسے چھوڑ دیں۔“
اور اس کتاب کے آخر میں شیخ موصوف نے ظہورِ بدعات کے چند اسباب ذکر کئے ہیں، ان میں سے ایک سبب شیخ کے مندرجہ ذیل الفاظ میں ملاحظہ کیجئے :
التعصب للأراء والرجال : يحول بين المرء واتباع الدليل ومعرفة الحق، قال تعالى : وهذا هو الشأن فى المتعصبين اليوم من بعض أتباع المذاهب الصوفية والقبوريين إذا دعوا إلى اتباع الكتاب والسنة ونبذ ما هم عليه فما يخالفهما احتجوا بمذاهبهم ومشائخهم و آباء هم واجدادهم . ( كتاب التوحيد ص 110)
”آراء اور اشخاص کے لئے تعصب، جو کہ انسان کو اتباع دلیل اور حق کی معرفت سے روک دیتا ہے، ( بھی ظہورِ بدعات کے اسباب میں سے ایک ہے) اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ’’ اور جب انہیں کہا جائے کہ اللہ نے جس چیز کو اتارا ہے اس کی پیروى کرو، تو وہ جواب دیتے ہیں کہ نہیں ہم تو اس چیز کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا“ اور یہی حال آج ان متعصب لوگوں کا ہے جن کا تعلق صوفیاء اور قبر پرستوں کے ساتھ ہے، اور وہ مذاہب کی پیروی کرتے ہیں، تو انہیں جب کتاب و سنت کی پیروی کی طرف دعوت دی جائے اور انہیں کہا جائے کہ تمہارے اندر کتاب و سنت سے ٹکرانے والی جو باتیں ہیں انہیں چھوڑ دو، تو یہ اس کے مقابلے میں اپنے مذاہب مشارئخ اور آباؤ اجداد کو دلیل بناتے ہیں۔ ‘‘

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے