کیا سورہ نمل آیت 62 سے حضرت علی رض کا خلیفہ بلافصل ہونا ثابت ہوتا ہے؟
تالیف: حافظ محمد انور زاہد حفظ اللہ

علی رضی اللہ عنہ سے قیامت تک منافق کے علاوہ کوئی بغض نہیں رکھ سکتا
حضرت عمران بن حصین کا بیان ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ اور علی رضی اللہ عنہ آپ کے پہلو میں بیٹھے تھے۔ اچانک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی ”کیا وہ مضطرب کی پکار نہیں سنتا اور اس سے تکلیف دور نہیں کرتا اور تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے۔“
اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مونڈھے کاپننے لگے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کے مونڈھے پر ہاتھ مارا اور فرمایا۔ اے علی رضی اللہ عنہ تجھ سے مومن کے علاوہ کوئی محبت نہیں کر سکتا۔ اور منافق کے علاوہ کوئی بغض نہیں رکھ سکتا۔
[ميزان الاعتدال : 47/7 و الخطيب فى التاريخ 626/14 شرح السنة للبغوي 114/14 و ابن ابي شيبة فى مصنفه 57/12 من طريق آخر]
یہ آیت سننے کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کپکپانے اور پھر ان کے بارے میں فیصلہ سنانے سے اس آیت کا کوئی تعلق نہیں۔ دراصل اس داستان کا راوی نفیع بن الحارث الخعی الکوفی الاعمی ہے۔ اس کی کنیت ابو داؤد ہے۔ یہ ایک قصہ گو انسان تھا۔ عقیلی کا بیان ہے۔ یہ غالی رافضی تھا۔ بخاری کہتے ہیں۔ اس پر محدثین کو اعتراض ہے۔ یحیی بن معین کہتے ہیں یہ کچھ نہیں۔ نسائی کا بیان ہے کہ یہ متروک ہے۔ اس نفیع کو ابو داؤد الاعمی اور ابو داود السبیعی بھی کہا جاتا ہے۔ بعض افراد نے دھوکہ دینے کے لیے اس کا نام نافع بن ابی نافع بھی بیان کیا ہے تاکہ لوگ اسے کوئی غیر شخص تصور کریں۔
قتادہ بن دعامہ جو اس کے ہم عصر تھے۔ وہ کہتے ہیں یہ کذاب ہے۔ دارقطنی کا بیان ہے کہ یہ متروک الحدیث ہے۔ ابو زرعہ کہتے ہیں یہ کچھ نہیں۔ ابن حبان کا بیان ہے۔ کہ اس ابو داؤد سے روایت اخذ کرنا بھی جائز نہیں۔
ہمام کا بیان ہے کہ یہ ابو دادو ایک بار بصرہ آیا اور ہمارے سامنے زید بن ارقم اور براء رضی اللہ عنہ کی احادیث بیان کرنے لگا۔ ہم نے قتادہ سے اس کا ذکر کیا۔ انہوں نے فرمایا وہ جھوٹ بولتا ہے کیونکہ طاعون جارف یعنی 118ھ سے قبل تو وہ گدا گر تھا۔ لوگوں سے بھیک مانگتا پھرتا تھا۔ (اور اب محدث بن گیا ہے) [ميزان الاعتدال : ج 4، ص : 272]
یہ ابو داود حضرت انس رضی اللہ عنہ، حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ، حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ، حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ، اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے احادیث روایت کرتا ہے۔ جو خود ایک انتہائی مشکوک امر ہے۔
اس لیے کہ نفیع بصرہ میں طاعون جارف کے وقت گیا یعنی 1118ھ کے بعد جب کہ عمران رضی اللہ عنہ بن حصین کا بصرہ میں 52ھ میں اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا 93ھ میں انتقال ہوا۔ پھر لطف یہ ہے کہ برا نے 72ھ میں کوفہ میں زید بن ارقم نے مدینہ میں 68 میں اور این عباس رضی اللہ عنہ 68ھ میں طائف میں انتقال کیا۔ اور ماشاء اللہ یہ سب سے نقل کر رہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ امام قتادہ فرماتے ہیں اس نے ان صحابہ میں سے کسی سے بھی حدیث نہیں سنی۔ امام مسلم نے ہمام سے نقل کیا ہے۔ کہ اس ابو داؤد کا دعوی تھا کہ اس نے اٹھارہ بدری صحابہ کو دیکھا ہے۔ اس پر امام قتادہ نے فرمایا حسن بصری اور سعید بن المسیب اس سے عمر میں بھی بڑے تھے اور اس سے زیادہ علم دین کے متلاشی تھے۔ لیکن انہوں نے بھی کسی بدری صحابی سے حدیث نہیں سنی ہاں سعید بن المسیب نے صرف ایک بدری صحابی یعنی سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے حدیث سنی ہے۔ [مقدمه مسلم، ج 1، ص16]
حارث بن حصیرۃ الازدی :
اسی ابو داؤد سے یہ روایت حارث بن حصیرہ الازدی نے نقل کی ہے۔ نسائی کا بیان ہے کہ یہ ثقہ ہے یحیی بن معین فرماتے ہیں اگر چہ یہ ثقہ تھا۔ لیکن اس لکڑی کا بچاری تھا۔ جس پر زید بن علی بن حسین کو پھانسی دی گئی تھی۔
ابو احمد الزبیری کا بیان ہے کہ یہ شخص فرقہ رجعیہ سے تعلق رکھتا تھا۔ ابو حاتم رازی لکھتے ہیں۔ اگر سفیان ثوری اس سے روایات نہ لیتے تو سب لوگ اس کی روایات ترک کر دیتے۔ [ميزان الاعتدال : ج 1، ص : 432]
دارقطنی لکھتے ہیں کہ حارث بن حصیرہ غالی قسم کا شیعہ تھا۔ [الضعفاء والمتروكين ص : 76]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں سچا ہے۔ غلطیاں کرتا ہے لیکن اس پر رفض کا اتہام ہے۔ [تقريب ص : 59]
عبد الحسین شرف الدین موسوی جو عراق میں شیعوں کا امام تھا وہ اپنی کتاب میں لکھتا ہے۔ ابو حاتم نے اس کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ یہ شیعہ تھا۔ ایک آزاد کردہ غلام تھا۔ ابو احمد الزبیری کہتے ہیں یہ رجعت پر ایمان رکھتا تھا۔ ابن عدی کہتے ہیں کہ ضعف کے باوجود اس کی روایت لکھی جائے یہ کوفہ کے آگ لگانے والے شیعوں میں داخل ہے۔
ذنیج کا بیان ہے میں نے جریر سے سوال کیا کہ کیا آپ نے حارث بن حصیرہ کو دیکھا ہے۔ انہوں نے جواب دیا ہاں دیکھا ہے ایک بہت بوڑھا شخص تھا۔ ا کثر خاموش رہتا۔ لیکن ایک بہت بڑی بات پر اصرار کرتا۔ یحیی بن معین اور نسائی کا بیان ہے کہ ثقہ ہے خشبی ہے۔ اس حارث سے سفیان ثوری، مالک بن مغول اور عبد اللہ بن نمیر نے روایات نقل کی ہیں۔ یہ شیعوں کا شیخ اور ان کا معتبر راوی شمار ہوتا ہے۔ ہم نے یہ سب کچھ میزان سے تحریر کیا ہے۔
نسائی نے عباد بن یعقو ب کے ذریعہ عبد اللہ بن عبد الملک المسعودی نے اس حارث بن حصیرہ کے ذریعہ زید بن وہب سے نقل کیا ہے کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے سنا کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کے رسول کا بھائی ہوں۔ [مرا جعات : ص 78]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے