حدیث کی تصدیق اور راویوں پر ایمان کا اعتراض

پہلا اعتراض:

"قرآن پر ایمان لانے کے لیے رسولؐ کی رسالت پر ایمان لانا ضروری ہے۔ پس روایتوں کو حدیث ماننے کے لیے راویوں پر ایمان لانا ضروری ہوگا۔ کیا ہمیں ان گنت راویوں پر ایمان لانے کی تکلیف دی گئی ہے؟”

جواب:

قرآن کا تواتر اور امت کا اتفاق:

◄ آپ نے خود قرآن کی صحت کو امت کے اجتماعی نقل و تواتر سے تسلیم کیا ہے۔ اگر تواتر کی بنا پر قرآن پر یقین جائز ہے تو یہی اصول حدیث پر بھی لاگو ہوگا۔
◄ اگر قرآن چودہ صدیوں کے مسلمانوں کے ذریعے ہم تک پہنچا اور اس کو تسلیم کرتے ہوئے کسی پر ایمان لانا لازم نہیں، تو احادیث کو قبول کرنے میں بھی یہی اصول کارفرما ہوگا۔

سوال: اگر قرآن امت کے "نیک و بد” انسانوں کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے تو کیا ان تمام افراد پر ایمان لانا واجب ہے؟
جواب: یقیناً نہیں۔ اسی طرح احادیث کے راویوں پر ایمان لانے کی شرط نہیں، بلکہ روایتوں کی تحقیق اور تصدیق کا اصول نافذ ہوگا، جیسا کہ قرآن خود حکم دیتا ہے۔

قرآنی اصولِ تحقیق:

قرآن فرماتا ہے کہ:
"فَتَبَيَّنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ”
(ترجمہ: "اگر کوئی فاسق خبر لائے تو تحقیق کرلو”۔) (سورۃ الحجرات: 6)

سوال: کیا رسولؐ کی حدیث سے متعلق کوئی خبر آئے تو اس حکم پر عمل نہیں کیا جائے گا؟
جواب: اگر تحقیق کے بعد خبر صحیح ثابت ہو تو اس کو قبول کرنا قرآنی حکم کا اتباع ہے، اور راوی پر ایمان لانا لازم نہیں۔
◄ آپ کا یہ اعتراض کہ حدیث کو قبول کرنا "راویوں پر ایمان لانے” کے مترادف ہے، حقیقت سے دور ہے۔ خبر کی تصدیق اور راویوں پر ایمان لانا دو مختلف چیزیں ہیں۔

دوسرا اعتراض:

"قرآن پر ایمان لانا واجب ہے، لیکن حدیث اور اس کے راویوں پر ایمان لانے کا حکم نہیں دیا گیا۔”

جواب:

واسطے کا اصول:

◄ قرآن آپ تک بغیر کسی واسطے کے نہیں پہنچا۔ یہ سینکڑوں، ہزاروں، بلکہ لاکھوں افراد کے تواتر کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے۔
سوال: کیا آپ ان تمام افراد پر ایمان لائے ہیں؟
جواب: نہیں، بلکہ آپ ان کے نقل کردہ کلام کی صحت پر اعتماد کرتے ہیں۔ یہی اصول حدیث کے لیے بھی قابل قبول ہے۔

خبر اور شہادت کا قبول کرنا:

◄ اگر آپ خبر دینے والے کی بات کو قبول کرتے ہیں یا کسی شاہد کی گواہی سنتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اس پر ایمان لے آئے۔
◄ دنیا بھر کی عدالتوں میں گواہوں کی شہادتیں قبول کی جاتی ہیں، لیکن کسی جج یا قاضی نے گواہ پر ایمان نہیں لایا۔

رسول اللہ ﷺ کا طرزِ عمل:

◄ نبی اکرمﷺ اور خلفائے راشدین نے بھی خبروں اور گواہیوں پر اعتماد فرمایا۔
◄ کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ رسول اللہﷺ بھی "راویوں پر ایمان” لے آئے تھے؟
◄ یہ اعتراض بے بنیاد اور غیر منطقی ہے۔

قرآن اور حدیث کا باہمی تعلق

◄ قرآن اور حدیث دونوں ایک ہی ذریعے سے ہم تک پہنچے ہیں۔ اگر قرآن کی حفاظت کا ذریعہ امت ہے تو حدیث کی حفاظت بھی اسی امت نے کی ہے۔
◄ قرآن نے نماز، زکوٰۃ اور دیگر عبادات کا حکم دیا، لیکن تفصیلات بیان نہیں کیں۔ ان کی وضاحت حدیث کے ذریعے رسول اللہﷺ نے فرمائی۔
◄ جو لوگ حدیث کا انکار کرتے ہیں، وہ درحقیقت قرآن کو ناقابلِ عمل بنا کر پیش کر رہے ہیں۔

پرویز صاحب کی "قرآن کی ماسٹر کاپی” کا دعویٰ:

◄ پرویز صاحب نے دعویٰ کیا کہ مسجد نبوی میں ایک "مستند نسخہ” صندوق میں محفوظ تھا۔
◄ یہ دعویٰ تاریخ کے کسی مستند ماخذ سے ثابت نہیں۔
◄ پرویز صاحب نے حدیث پر اعتراضات کے جواب سے بچنے کے لیے اپنی طرف سے یہ غلط بیانی گھڑ لی۔

نتیجہ:

◄ حدیث کو راویوں کی بنیاد پر رد کرنے کا اعتراض غیر منطقی ہے۔
◄ قرآن اور حدیث دونوں امت کے ذریعے ہم تک پہنچے ہیں، اور دونوں کی قبولیت کے اصول ایک جیسے ہیں۔
◄ احادیث کی صحت کو ثابت کرنے کے لیے تحقیق کا قرآنی اصول کافی ہے، اور راویوں پر ایمان لانا ہرگز لازم نہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے