ظن اور یقین کی بحث میں حدیث کی حیثیت

طلوع اسلام کا دعویٰ:

"طلوع اسلام” کے پیروکاروں نے حدیث کے ذخیرے کو رد کرنے کے لیے ظن اور یقین کی بحث کو بنیاد بنایا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دین صرف یقینی چیز پر مبنی ہو سکتا ہے، ظنی اور قیاسی نہیں۔
(مقام حدیث، صفحہ 4)

فن حدیث میں لفظ "ظن” کا مفہوم

محدثین نے علم حدیث میں لفظ "ظن” استعمال کیا ہے، لیکن اس سے وہ شک یا وہم مراد نہیں لیتے جو منکرین حدیث ظاہر کرتے ہیں۔ محدثین نے احادیث کو مختلف درجوں میں تقسیم کیا ہے، جن کی وضاحت درج ذیل ہے:

1. سنن متواترہ و متعاملہ

◄ وہ احادیث جن پر امت صحابہ کرامؓ کے دور سے بلا اختلاف عمل کرتی آرہی ہے۔
مثالیں:
◈ نمازوں کی تعداد پانچ ہے۔
◈ رکعتوں کا تعین، حج اور زکوٰۃ کے طریقے، نکاح و طلاق کے قوانین۔
یہ احادیث نسل در نسل منتقل ہوتی رہیں اور امت کا عمل ان پر قطعی اور یقینی ہے۔

2. احادیث متواترہ

◄ ایسی احادیث جن کا تعلق عقائد سے ہو۔
مثالیں:
إِنَّمَا الأَعمَالُ بِالنِّيَّاتِ
(ترجمہ: "تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے”)
(صحیح بخاری، الحدیث: 1 / صحیح مسلم، الحدیث: 1907)
مَن کَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ
(ترجمہ: "جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھا، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔”)
(صحیح بخاری، الحدیث: 107 / صحیح مسلم)

3. حدیث عزیز اور مشہور

حدیث عزیز: ہر سطح پر دو راوی ہوں، جو عادل اور ضابط ہوں۔
حدیث مشہور: ہر سطح پر دو سے زائد راوی ہوں۔
ان احادیث سے گمانِ غالب حاصل ہوتا ہے۔

4. حدیث غریب

◄ ایسی احادیث جن کے راوی کسی سطح پر ایک ہی ہوں۔ انہیں "اخبار آحاد” کہا جاتا ہے۔
◄ یہاں "ظن” کا مطلب وہم نہیں بلکہ "ظن علم” ہے، یعنی اندازہ جو یقینی دلائل کے قریب ہو۔

خبر واحد کا یقینی پہلو

محدثین کرام نے وضاحت کی ہے کہ اگر خبر واحد کے ساتھ دوسرے قرائن و شواہد شامل ہوں تو وہ یقین کا درجہ حاصل کر لیتی ہے۔

قرائن و شواہد کی مثالیں:

صحیح بخاری و مسلم کی روایات: ان کی صحت پر امت کا اجماع ہے۔
مشہور حدیث: جب وہ کئی سندوں سے مروی ہو اور خامیوں سے پاک ہو۔
مسلسل بالائمہ: ایسی حدیث جس کے راوی ہر دور کے جلیل القدر اہل علم ہوں۔
اگر ان تینوں پہلوؤں میں سے ایک بھی حدیث میں شامل ہو تو وہ یقین کا درجہ حاصل کر لیتی ہے۔

خبر واحد کی اقسام اور درجہ بندی

محدثین نے خبر واحد کو صحت اور ضعف کے اعتبار سے مختلف درجات میں تقسیم کیا ہے:
صحیح لذاتہ: راوی ثقہ ہوں اور سند متصل ہو۔
حسن لذاتہ: راوی کے حافظہ میں معمولی کمی ہو۔
صحیح لغیرہ: حسن حدیث کئی سندوں سے مروی ہو۔
حسن لغیرہ: ضعیف حدیث جسے کئی سندیں تقویت دیں۔

"طلوع اسلام” کا اعتراض

"طلوع اسلام” یہ اعتراض کرتا ہے کہ حدیث کی مختلف اقسام کیوں ہیں؟ کیوں نہ ہر حدیث کو صرف "صحیح” یا "غلط” کہا جائے؟

جواب:

◄ یہ اعتراض لاعلمی پر مبنی ہے۔
◄ حدیث کو قبولیت کے لحاظ سے دو اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے:
مقبول (صحیح)
مردود (غلط)
◄ پھر درجات کے لحاظ سے حدیث کی مزید اقسام ہیں، جو فن حدیث کی وسعت کو ظاہر کرتی ہیں۔

حدیث مقبول کی اقسام:

◈ متواتر
◈ مشہور
◈ عزیز
◈ غریب
◈ صحیح
◈ حسن

حدیث مردود کی اقسام:

◈ موضوع
◈ متروک
◈ ضعیف
◈ مضطرب

نتیجہ

محدثین نے احادیث کی صحت جانچنے کے لیے انتہائی محنت اور علم کا مظاہرہ کیا۔ احادیث کی سند اور متن کی تحقیق کے لیے اصول مرتب کیے، جن کی مثال دنیا کی کسی اور قوم میں نہیں ملتی۔
بدقسمتی سے کچھ لوگ لاعلمی یا مغربی مستشرقین کے پروپیگنڈے کا شکار ہو کر حدیث کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حدیث کے بغیر دین مکمل نہیں ہو سکتا، کیونکہ قرآن کریم کی عملی تفسیر سنت رسولؐ میں موجود ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے