مغرب کے زیر اثر اسلام کا تصور
چوہدری غلام احمد پرویز، جو کہ ’مفکر قرآن‘ کے لقب سے معروف ہیں، نہ صرف مغربی فکر و تہذیب کو نظریاتی طور پر قبول کرنے کے حامی تھے بلکہ انہوں نے مغربی معاشرت کے کئی پہلوؤں کو بھی قرآن کے نام پر اپنانے کی دعوت دی۔ پرویز صاحب نے ان نظریات کو اپنی پچاس سالہ قرآنی خدمات قرار دیا۔ حقیقت میں ان کا یہ ’انقلابی اسلام‘ محمد رسول اللہﷺ اور ان کے اصحاب کا پیش کردہ حقیقی اسلام نہیں بلکہ مغربی افکار سے متاثرہ ایک نئی تعبیر ہے، جسے مغرب نے خوش دلی سے قبول کیا۔
مغربی سکالرز کی پذیرائی
پرویز صاحب کی اس فکری تعبیر کو مغرب میں بے حد پذیرائی ملی، اور مغربی دانشوروں نے اس پر تحقیق اور تعریف کی۔ اس پذیرائی کی وجہ ان کا ’انقلابی اسلام‘ تھا جو مغربی تہذیب کے مفادات کے عین مطابق تھا۔
مغربی دانشوروں کی آراء
1. ڈاکٹر فری لینڈ ایبٹ
امریکہ کی Tufts یونیورسٹی کے ڈاکٹر فری لینڈ ایبٹ نے اپنی کتاب “Islam and Pakistan” (1968) میں پرویز صاحب کو پاکستان کا سب سے بڑا اصلاح کار قرار دیا۔
(حوالہ: طلوع اسلام، نومبر 1976ء، ص58)
2. ڈاکٹر جے ایم ایس بیلجون
ہالینڈ کے مستشرق ڈاکٹر بیلجون نے اپنی کتاب “Modern Muslim Koran Interpretation” میں پرویز صاحب کو عصر جدید کے مفسرین میں شامل کیا۔
(حوالہ: طلوع اسلام، نومبر 1976ء، ص58)
3. پروفیسر ای آئی جے روزنٹل
پروفیسر روزنٹل نے اپنی کتاب “Islam in the Modern National” (1965) میں پرویز صاحب کی تحریک پر تفصیل سے گفتگو کی۔
(حوالہ: طلوع اسلام، نومبر 1976ء، ص58)
4. شیلا میک ڈونو
کینیڈا کی McGill یونیورسٹی کی شیلا میک ڈونو نے پرویز صاحب کے بارے میں ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھا جس کا عنوان “The Authority of the Past” تھا۔
(حوالہ: طلوع اسلام، نومبر 1976ء، ص59)
5. ڈاکٹر پی رابرٹ اے بٹلر
سوئٹزرلینڈ کے عیسائی مشنری ڈاکٹر بٹلر نے “Ideological Revolution Through the Quran” کے نام سے ایک تحقیقاتی مقالہ پیش کیا جسے بعد میں فرانسیسی زبان میں بھی شائع کیا گیا۔
(حوالہ: طلوع اسلام، نومبر 1976ء، ص59)
پرویز صاحب کی مغرب میں مقبولیت کا سبب
یہ سوال اہم ہے کہ اگر پرویز صاحب کا اسلام واقعی رسول اللہﷺ کا پیش کردہ اسلام ہے تو مغرب، جو اسلام دشمنی کے لئے مشہور ہے، اس کو کیوں پسند کرتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ پرویز صاحب کا پیش کردہ ’انقلابی اسلام‘ دراصل مغربی معاشرت اور اشتراکی نظام کے عین مطابق ہے۔ مغربی دانشوروں نے اسے نبوی اسلام کا متبادل قرار دیا اور اسے اپنے سیاسی اور فکری مقاصد کے لئے استعمال کیا۔
مودودیؒ اور پرویز صاحب: ایک تقابلی جائزہ
مولانا مودودیؒ نے بیسویں صدی میں دفاع اسلام کا عظیم فریضہ انجام دیا، لیکن ان کی کتب پر مغرب نے تحقیق کے بعد انہیں نامسعود اور منحوس شخصیت قرار دیا۔ اس کے برعکس پرویز صاحب کی تعریف مغربی سکالرز نے اس لئے کی کہ ان کا ’انقلابی اسلام‘ مغربی مفادات کے مطابق تھا۔
“Finally we come to the most ominous representative of this trend, back to religious conservation: Syed Abu-Al-A’la Mawdudi.”
(Modern Islam in India, Wilfred Cantwell Smith, Sh. M. Ashraf, Lahore, 1969. Page 164)
نتیجہ
پرویز صاحب کا اسلام، جو مغرب میں مقبول ہے، درحقیقت اسلامی تعلیمات کو مغربی تہذیب کے مطابق ڈھالنے کی ایک کوشش ہے۔ یہودی، عیسائی اور ملحد دانشوروں کی طرف سے دی گئی پذیرائی اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کا اسلام خدا اور رسولﷺ کے کام کا نہیں بلکہ کفار کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔