حدیث خودکشی کا تجزیہ حقیقت یا غیر متصل روایت

عیسائی مشنریوں کے دعوے کا تجزیہ

عیسائی مشنری صحیح بخاری کی ایک روایت کو بنیاد بنا کر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حضرت محمد ﷺ نے وحی کے وقفے کے دوران خودکشی کی کوشش کی۔ آئیے اس روایت کا تجزیہ کرتے ہیں تاکہ معلوم ہو کہ یہ دعویٰ کتنا مستند ہے۔

حدیث کا متن

صحیح بخاری، کتاب التعبیر کی حدیث 6467 میں ایک طویل روایت ہے۔ ہمارے موضوع سے متعلقہ حصہ یہ ہے:
“فَتَرَ الْوَحْيُ فَتْرَةً حَتَّى حَزِنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ … كَيْ يَتَرَدَّى مِنْ رُءُوسِ شَوَاهِقِ الْجِبَالِ، فَكُلَّمَا أَوْفَى بِذِرْوَةِ جَبَلٍ لِكَيْ يُلْقِيَ مِنْهُ نَفْسَهُ تَبَدَّى لَهُ جِبْرِيلُ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ حَقًّا، فَيَسْكُنُ لِذَلِكَ جَأْشُهُ وَتَقِرُّ نَفْسُهُ، فَيَرْجِعُ۔”
وحی کچھ عرصہ کے لیے رک گئی یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غمزدہ ہوگئے… آپ نے سوچا کہ وہ پہاڑوں کی چوٹیوں سے خود کو گرا دیں۔ چنانچہ جب بھی آپ کسی پہاڑ کی چوٹی پر پہنچتے تاکہ اپنے آپ کو وہاں سے نیچے گرا دیں، جبرائیل علیہ السلام آپ کے سامنے ظاہر ہوتے اور فرماتے: "اے محمد! یقیناً آپ اللہ کے سچے رسول ہیں۔” اس پر آپ کا دل مطمئن ہوجاتا اور آپ کی طبیعت سنبھل جاتی، اور پھر آپ واپس لوٹ آتے۔
(صحیح بخاری، کتاب التعبیر، حدیث 6467)

الفاظ کا تجزیہ

یہاں اہم نکتہ "فِيمَا بَلَغَنَا” (ہم نے سنا ہے) کا جملہ ہے۔ اس جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات براہ راست روایت کے راویوں میں سے کسی سے منقول نہیں بلکہ یہ زہری رحمہ اللہ کے بلاغات (روایات) میں سے ہے، جو متصل نہیں ہیں۔

حافظ ابن حجر کی وضاحت

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"إِنَّ الْقَائِل فِيمَا بَلَغَنَا هُوَ الزُّهْرِيّ … وَلَيْسَ مَوْصُولًا”
(فتح الباری، 19/449، کتاب التعبیر)

یعنی یہ جملہ امام زہری کے بلاغات میں سے ہے، جو متصل نہیں ہیں اور اس لیے اسے قطعی طور پر مستند نہیں کہا جا سکتا۔

محدثین کا موقف

➊ امام زہری رحمہ اللہ جیسے بڑے راوی کے بلاغات بھی محدثین کے ہاں اس وقت تک غیر یقینی سمجھے جاتے ہیں جب تک وہ متصل روایت نہ ہوں۔

➋ یہ جملہ "فِيمَا بَلَغَنَا” خود ظاہر کرتا ہے کہ یہ ایک "سنی سنائی بات” ہے اور اس کی سند میں کوئی قوت نہیں۔

مستشرقین کی رائے

ایک معروف مستشرق الفریڈ گلیم بھی اس بات کی گواہی دیتا ہے:
Fi ma balaghani” جیسے الفاظ اس بات کی علامت ہیں کہ بیان غیر یقینی ہے۔”
(The Life of Muhammad: A Translation of Ishaq’s Sirat Rasul Allah, p. xix)

یہ ثابت کرتا ہے کہ حتیٰ کہ غیر مسلم محققین بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اس طرح کے جملے مشکوک ہوتے ہیں۔

دوسری روایات کا تقابل

یہی واقعہ دیگر کتب حدیث جیسے:

صحیح بخاری (حدیث 3)

صحیح مسلم (حدیث 231)

مستدرک الحاکم (حدیث 4830)

دلائل النبوۃ بیہقی (حدیث 445)

مسند احمد (حدیث 24681)

میں بھی مذکور ہے، لیکن ان میں کہیں بھی خودکشی کی کوشش کے الفاظ نہیں ملتے۔

خلاصہ

➊ صحیح بخاری کی روایت مستند ہے لیکن "خودکشی کی کوشش” والے الفاظ غیر متصل اور مشکوک ہیں۔

➋ اسلامی محدثین اور حتیٰ کہ مستشرقین نے بھی "فِيمَا بَلَغَنَا” جیسے الفاظ کو غیر یقینی قرار دیا ہے۔

➌ دیگر روایات میں اس واقعے میں خودکشی کی کوشش کا کوئی ذکر نہیں۔

نتیجہ

یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضرت محمد ﷺ کے بارے میں خودکشی کی کوشش کے دعوے کا کوئی مستند ثبوت موجود نہیں۔ یہ محض ایک غیر متصل روایت ہے جسے عیسائی مشنریوں نے بلا تحقیق پھیلایا ہے۔ اسلامی محدثین نے ہر روایت کے الفاظ کا باریک بینی سے تجزیہ کیا ہے، جس سے حدیث کا معیار اور مضبوط ہوتا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے