پرویزی مذہبی پیشوائیت کا افسانہ تضادات اور حقیقت

تعارف

منکرین حدیث کے امام پرویز صاحب نے مذہبی پیشوائیت کے تصور کو ہندو برہمنیت اور عیسائی پاپائیت سے اخذ کرکے مسلمانوں کی تاریخ میں داخل کیا اور اسے ایک مستقل حقیقت قرار دیا۔ تاہم، جب ان کے دعوؤں کو بغور دیکھا جائے تو ان میں واضح تضادات اور جھوٹ کا انکشاف ہوتا ہے۔

پرویز صاحب کا مذہبی پیشوائیت پر موقف

مذہبی پیشوائیت کا الزام

پرویز صاحب کے مطابق، مذہبی طبقہ ہمیشہ حکمرانوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کرتا آیا ہے۔ ان کے الفاظ میں:
"اربابِ شریعت سے، اربابِ حکومت و سیاست کا ساجھا ہے”
(طلوع اسلام: جنوری 1952ء، صفحہ 11)

جماعتِ اسلامی پر الزام

پرویز صاحب نے مذہبی پیشوائیت کا سب سے بڑا مظہر جماعتِ اسلامی کو قرار دیا اور مولانا مودودی کو "ملائیت کے سرخیل” کہا۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ جماعت حکمرانوں کی شرعی سند مہیا کرتی ہے اور ان کے مفادات کی حامی ہے۔

دوسرا مؤقف – تضاد

دوسری طرف، وہ جماعتِ اسلامی پر یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ یہ ہر حکومت کی مخالف رہی ہے اور حکمرانوں کو کلبوں میں رنگ رلیاں منانے والا کہتی ہے:
"یہ جماعت ہر برسراقتدار حکومت کے خلاف مسلسل پراپیگنڈہ کرتی چلی آرہی ہے”
(طلوع اسلام: مارچ 1967ء، صفحہ 16)

پرویز صاحب کے خود ساختہ تضادات

پرویز صاحب کے یہ دونوں دعوے (یعنی جماعتِ اسلامی کا حکمرانوں سے گٹھ جوڑ اور ان کے خلاف مسلسل مخالفت) ایک دوسرے کی نفی کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ:

➊ جماعتِ اسلامی ہمیشہ حق گوئی کا مظاہرہ کرتی رہی اور ہر غیر اسلامی حکومت کی مخالفت کی۔

➋ پرویز صاحب خود حکمرانوں کے قریب رہے، ان کے ساتھ مالی امداد لیتے رہے اور اپنے مشوروں سے ان کی حمایت کرتے رہے۔

پرویز صاحب اور حکمرانوں کے تعلقات

پرویز صاحب کے "حق گوئی” کے دعوے کے باوجود، ان کے حکمرانوں سے خوشگوار تعلقات کی مثالیں موجود ہیں:

➊ "پرویز صاحب کے قائداعظم سے لے کر ہر حکمران کے ساتھ اچھے تعلقات تھے‘‘
(طلوع اسلام: جنوری 1974ء، صفحہ 23)

➋ ایوب خان نے پرویز صاحب کے لٹریچر میں دلچسپی لی اور مالی اعانت فراہم کی:
"صدر ایوب نے میری کتاب کی اشاعت کے لئے مالی اعانت پیش کی”
(طلوع اسلام: جنوری 1984ء، صفحہ 47)

تاریخ میں مذہبی پیشوائیت کا جھوٹا الزام

پرویز صاحب نے مسلمانوں کی چودہ سو سالہ تاریخ میں مذہبی پیشوائیت اور اقتدار کے گٹھ جوڑ کا الزام لگایا، لیکن اس کا کوئی تاریخی ثبوت پیش نہ کرسکے۔

خود اعتراف کرتے ہیں:
چودہ صدیوں میں کبھی بھی مسلمانوں نے مولویوں کے ہاتھ میں حکومت نہیں دی
(طلوع اسلام: اگست 1981ء، صفحہ 29)

یہ واضح کرتا ہے کہ "مذہبی پیشوائیت” کا الزام محض ایک پروپیگنڈہ ہے جس کا مقصد علماے کرام کو بدنام کرنا اور دین کی سچی تعبیر کرنے والوں کو عوام سے دور کرنا تھا۔

پرویز صاحب کا عجمی سازش کا افسانہ

پرویز صاحب نے "عجمی سازش” کے نام پر مسلمانوں کے علمی ورثے کو مشکوک بنانے کی کوشش کی۔ اس افسانے کا مقصد تھا کہ:

➊ اسلامی شعائر اور دینی ثقافت کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جائے۔

➋ علماے کرام کو عوام کی نظروں میں گرانے کے لئے "ملا” کی اصطلاح کو نفرت آمیز انداز میں پیش کیا جائے۔

نوجوانوں کو پرویزی فکر کے اثرات سے بچنے کی ضرورت

جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کو چاہیے کہ:

➊ تحقیق اور دلیل کی بنیاد پر بات کریں، نہ کہ سنی سنائی باتوں پر۔

➋ مستشرقین اور پرویزی افکار کی اندھی تقلید نہ کریں۔

➌ دینی علوم کا خود مطالعہ کریں اور علما کے دلائل کو سمجھنے کی کوشش کریں۔

خلاصہ

پرویز صاحب کا مذہبی پیشوائیت کا تصور ایک من گھڑت نظریہ ہے جو مسلمانوں کی تاریخ میں کبھی حقیقت نہیں رہا۔ ان کا اپنا کردار اور تضادات واضح کرتے ہیں کہ ان کی جدوجہد دراصل قرآن و سنت پر مبنی اسلام کی مخالفت تھی۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے