جونیہ کے واقعے کا تجزیہ اور اعتراضات کی حقیقت

مستشرقین، ملحدین اور منکرین حدیث کے اعتراضات کی حقیقت

مستشرقین، ملحدین اور منکرین حدیث صحیح بخاری میں موجود جونیہ کے واقعے کو نبی کریم ﷺ کی شخصیت کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ اس واقعہ کو غلط انداز میں پیش کرکے حدیث اور سیرت نبوی پر اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں۔ اس تحریر میں ہم اس حدیث کی تفصیلی وضاحت اور اعتراضات کی حقیقت بیان کریں گے۔

بخاری کی روایت

صحیح بخاری میں روایت درج ہے:
"ابونعیم، عبدالرحمن بن غسیل، حمزہ بن ابی اسید، ابواسید کہتے ہیں کہ ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نکل کر ایک باغ پر پہنچے، جس کو شوط کہا جاتا تھا… نبی ﷺ نے فرمایا کہ تو اپنے آپ کو میرے حوالے کر دے۔ اس نے کہا: کیا کوئی شہزادی اپنے آپ کو کسی عام آدمی کے حوالے کر سکتی ہے؟”
(صحیح بخاری، کتاب الطلاق، حدیث 5092)

یہ حدیث مختصر ہے اور اس میں واقعے کی مکمل تفصیل نہیں ہے، جس کا فائدہ اٹھا کر مخالفین حدیث پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔

مکمل تفصیل

شادی کی پیشکش:
حضرت نعمان بن ابی جون الکندی نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ وہ اپنی بیٹی امیمہ بنت نعمان کی شادی آپ ﷺ سے کرنا چاہتے ہیں۔ وہ بیوہ اور انتہائی خوبصورت تھی اور آپ ﷺ سے شادی کی خواہش مند تھی۔ آپ ﷺ نے پانچ سو درہم مہر مقرر کرکے اس سے نکاح فرمایا۔
(طبقات الکبریٰ 8/114)

جونیہ کی مدینہ آمد:
ابواسید رضی اللہ عنہ جونیہ کو مدینہ لے کر آئے۔ مدینہ کی عورتوں نے اس کے حسن کے چرچے کیے اور اسے غلط مشورہ دیا کہ اگر وہ نبی کریم ﷺ کے قریب ہونا چاہتی ہے تو آپ ﷺ کے سامنے "اعوذباللہ منک” کہے۔
(طبقات الکبریٰ 8/114)

غلط مشورہ کا نتیجہ:
جب نبی کریم ﷺ جونیہ کے قریب گئے تو اس نے کہا: "میں آپ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں۔” آپ ﷺ نے فرمایا: "تو نے ایسی ذات کی پناہ مانگی ہے جس کی پناہ مانگی جاتی ہے۔” پھر آپ ﷺ نے اسے عزت و احترام کے ساتھ دو کپڑے تحفے میں دے کر اس کے خاندان کے پاس واپس بھیج دیا۔

نبی کریم ﷺ کا ردعمل:
اس عورت کے اس رویے کے پیچھے دوسرے لوگوں کا دھوکہ تھا۔ جب آپ ﷺ کو معلوم ہوا تو فرمایا: "یہ عورتیں حضرت یوسف علیہ السلام کی عورتوں کی طرح ہیں اور ان کا مکر بہت بڑا ہے۔
(طبقات الکبریٰ 8/114)

مفاہیم کی وضاحت

"هَبِي نَفْسَكِ” کے معنی:
آپ ﷺ کا کہنا "مجھے اپنا آپ بخش دو” درحقیقت اسے تسلی دینے اور زوجیت پر آمادہ کرنے کے لیے تھا، نہ کہ نکاح کا پیغام یا مہر کے بغیر تعلق کا مطالبہ۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: "یہ الفاظ اس کا دل جیتنے اور پرسکون کرنے کے لیے تھے۔”
(فتح الباری: 9/360)

"سُوقَۃ” کا مطلب:
منکرین حدیث "سُوقَۃ” کا ترجمہ غلط کرکے اسے "بازاری شخص” قرار دیتے ہیں، جبکہ صحیح ترجمہ ہے: "وہ شخص جو بادشاہ نہ ہو۔”
(لسان العرب: 10/166)

جونیہ کا نبی ﷺ کو نہ پہچاننا:
صحیح بخاری میں موجود ایک اور روایت کے مطابق اس عورت نے نبی کریم ﷺ کو نہیں پہچانا تھا۔
(صحیح بخاری، کتاب الاشربۃ، حدیث 5637)

نبی کریم ﷺ کا اخلاق کریمانہ

آپ ﷺ نے جونیہ کو کسی قسم کی زبردستی نہیں کی، بلکہ عزت و احترام کے ساتھ اسے رخصت فرمایا۔

نتائج

➊ جونیہ کا نکاح نبی کریم ﷺ سے ہوچکا تھا۔

➋ اس واقعے میں کسی قسم کی بداخلاقی یا جبر کا شائبہ بھی نہیں پایا جاتا۔

➌ "سُوقَۃ” کا مطلب "بادشاہ نہ ہونا” ہے، نہ کہ بازاری شخص۔

➍ جونیہ کو دوسرے لوگوں نے دھوکہ دیا تھا، اور آپ ﷺ نے اس کی غلط فہمی پر برا نہیں منایا۔

اعتراضات کی حقیقت

قرآن میں بھی اللہ کے رسولوں کی مخالفت کرنے والے مشرکین اور یہود کے گستاخانہ الفاظ نقل ہوئے ہیں، لیکن کسی نے ان آیات کو گستاخانہ قرار نہیں دیا۔ اسی طرح اس حدیث میں جونیہ کے کلمات ذکر کیے گئے ہیں، جو اس کی غلط فہمی کا نتیجہ تھے۔

خلاصہ

یہ واقعہ نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ کے خلاف نہیں، بلکہ آپ ﷺ کے اعلیٰ اخلاق اور صبر و تحمل کا مظہر ہے۔ منکرین حدیث نے محض تعصب اور جہالت کی بنیاد پر اس حدیث کو غلط رنگ دینے کی کوشش کی، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے