قراءت متواترہ
یہ وہ قراءتیں ہیں جو نبی کریم ﷺ سے تواتر کے ذریعے نقل ہوئیں، صحیح اور مقبول ہیں، اور عربی قواعد و رسم عثمانی کے مطابق ہیں۔ انہی قراءتوں کی تلاوت جائز ہے، اور موجودہ قرآن انہی پر مشتمل ہے۔
قراءت شاذہ
قراءت شاذہ وہ ہیں جن کی سند ضعیف ہو یا جو عربی قواعد اور رسم عثمانی کے خلاف ہوں۔
قراءت شاذہ کا مفہوم اور اس کی وجہ تسمیہ
حافظ ابن صلاح رحمہ اللہ:
قراءت شاذہ ایسی قراءت ہے جو قرآن کی حیثیت سے نقل ہوئی ہو، مگر وہ تواتر سے ثابت نہ ہو اور نہ ہی قراءت کے ائمہ کے نزدیک قبولیت عامہ حاصل ہو۔
(البرہان فی علوم القرآن: 1/481)
ڈاکٹر لبیب السعید رحمہ اللہ:
شاذ قراءت سے مراد وہ قراءت ہے جو آحاد سند سے مروی ہو، رسم عثمانی کے خلاف ہو، اور قاعدہ عربیہ کے موافق ہو۔ ایسی قراءت شاذ کہلاتی ہے۔
(الجمع الصوتی الاول للقرآن: 221)
سببِ تسمیہ:
قراءت شاذہ کو شاذ (علیحدہ) اس لیے کہا گیا کہ یہ قراءتیں رسم عثمانی سے مختلف ہیں۔
(مناہل العرفان: 1/376)
قراءت شاذہ کی اقسام
- صحیح سند اور قواعد کے مطابق، لیکن تواتر سے ثابت نہیں
- صحیح سند اور لغت کے موافق، مگر رسم عثمانی سے مختلف
- صحیح سند اور رسم عثمانی کے مطابق، لیکن لغت عرب کے خلاف
- صحیح سند مگر قرآنی الفاظ نہیں بلکہ تفسیری اضافے
- ایسی قراءت جس کی سند ضعیف ہو، چاہے وہ قواعد و رسم عثمانی کے موافق ہو یا نہ ہو
- بے سند قراءت، جو قواعد اور رسم عثمانی کے مطابق ہو یا نہ ہو
مثال:
ایسی قراءت جس کی سند یا قواعد میں کمی ہو، اسے شاذ یا حتیٰ کہ مکذوبہ کہا جاتا ہے اور اس کی تلاوت جائز نہیں۔
(المحتسب: 1/247، القرآءت السبع: 278، النشر: 1/16، الاتقان: 1/77)
قراءت شاذہ کی شرعی حیثیت
اتفاقِ امت:
تمام علماء کا اجماع ہے کہ قراءت شاذہ قرآن نہیں ہے۔
علامہ ابن حزم رحمہ اللہ:
قراءت شاذہ کو مصحف میں لکھنا اور اس کی تلاوت کرنا جائز نہیں۔
(المحلی: 4/255)
علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ:
ایسی قراءت پڑھنے والے کے پیچھے نماز پڑھنے کو علماء نے منع کیا ہے۔
(التمہید: 8/293)
قراءت شاذہ کی حجیت
بعض علماء کے نزدیک قراءت شاذہ کو بطور تفسیر حجت سمجھا جاتا ہے، جیسے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ نے۔
شرائط
قراءت شاذہ کو بطور حدیث قبول کرنے کی صورت میں درج ذیل شرائط لازمی ہیں:
- وہ صحیح سند سے ثابت ہو۔
- اس کے خلاف کوئی قوی دلیل یا حدیث نہ ہو۔
- اس کا نسخ ثابت نہ ہو۔
قراءت شاذہ اور ملحدین کے اعتراضات
ملحدین کا دعویٰ:
مستشرقین اور ملحدین، جیسے گولڈزیہر اور آرتھر جیفری، نے قراءت شاذہ کی بنیاد پر قرآن پر اعتراضات کیے۔ وہ کہتے ہیں کہ بعض قراءتیں موجودہ قرآن میں شامل نہیں ہیں، جس سے قرآن کے متن پر اختلاف کا تاثر دینے کی کوشش کی گئی۔
حقیقت:
قرآن کی صرف وہی قراءتیں معتبر ہیں جو:
- نبی ﷺ سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہوں۔
- عربی قواعد کے مطابق ہوں۔
- رسم عثمانی کے موافق ہوں۔
اعتراضات کی وضاحت
تشریحی اضافے:
کبھی صحابہ یا تابعین نے قرآنی آیات کے ساتھ تفسیری کلمات شامل کیے، جو اصل متن کا حصہ نہیں تھے۔
مثال:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے مصحف میں صلوٰۃ العصر کا اضافہ تھا جو وضاحت کے لیے تھا۔
(صحیح مسلم، کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ، حدیث: 1427)
منسوخ قراءتیں:
بعض قراءتیں منسوخ ہوچکی تھیں، مگر کسی صحابی کو علم نہ ہونے کی وجہ سے وہ انہیں پڑھتے رہے۔
مثال:
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سورۃ اللیل کی منسوخ قراءت پر قائم تھے۔
(صحیح بخاری، کتاب التفسیر، حدیث: 4944)
ضعیف اور موضوع روایات:
بعض قراءتیں ضعیف یا موضوع ہوتی ہیں، جیسے ابن لسمیفع کی قراءتیں۔
(النشر: 1/16)
خلاصہ
قراءت شاذہ میں قرآن کے ثبوت کی شرائط مفقود ہوتی ہیں، اس لیے امت کا اتفاق ہے کہ یہ قرآن نہیں ہیں۔
قراءت شاذہ کو بطور قرآن پڑھنا یا نماز میں اس کی تلاوت کرنا جائز نہیں۔
جمہور علماء کے نزدیک صحیح سند والی شاذہ قراءت کو بطور حدیث قبول کیا جاسکتا ہے، بشرطیکہ وہ کسی قوی دلیل یا حدیث کے معارض نہ ہو۔