انسان کا سارا مال اپنی اولاد کے لیے وقف کر دینا
انسان کا سارا مال اپنی اولاد کے لیے وقف کرنا جائز نہیں کیونکہ اس میں طرف داری کا پہلو ہے۔ اس وقف کی وجہ سے بیویوں اور دیگر تمام وارثوں کو شرعی وراثت سے محروم کر دیا گیا ہے۔ ورثا میں سے جو اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا وہ وراثت (جو اس کا حق تھا) اور منفعت (جو اس کو وقف کی صورت میں حاصل ہوتی) دونوں ہی سے محروم ہو گیا ہے اور جو فائدہ اٹھاتا ہے (وقف کی وجہ سے) وہ شرعی وراثت سے محروم رہتا ہے اور وراثت سے جو حصہ اس کو ملنا تھا اس میں بھی وہ تصرف نہیں کر سکتا، لہٰذا یہ خلاف شرع کام ہے۔
شرعی طریقہ یہ ہے کہ انسان تیسرے حصے کو نیکی کے کاموں میں صرف کرنے کے لیے وصیت کر دے اور ضرورت مند ورثا کے لیے اس کی آمدنی وقف کر دے تاکہ وہ اس سے کھاتے رہیں اور اس میں کوئی حرج نہیں۔
صحیحین میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مروی ہے کہ جب انہوں نے پوچھا کہ کیا میں اپنے سارے مال کی وصیت کر جاؤں؟ تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ انہوں نے کہا: آدھے کی؟ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: تیسرے حصے کی اور تیسرا حصہ بھی زیادہ ہے۔ [صحيح البخاري، رقم الحديث 1295 صحيح مسلم 1628/5]
امام احمد، ابو داود اور ترمذی نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سلم نے فرمایا: ”وارث کے لیے وصیت نہیں“ [سنن أبى داود، رقم الحديث 3565]
[اللجنة الدائمة: 577]