بیٹے کے ہوتے ہوئے پوتے کے لیے وصیت کا حکم
مؤلف : ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ

بیٹے کے ہوتے ہوئے (یتیم) پوتے کے لیے وصیت کرنا

سوال: میرا ایک چچا تھا اور اس کا ایک بیٹا تھا، میرا یہ چچا اپنے والد۔ میرے دادا سے پہلے فوت ہو گیا۔ میرے دادا نے اپنی وفات سے پہلے اپنے دوسرے بیٹے کے بیٹے۔ میرے چچا زاد کے لیے اپنے مال کے تیسرے حصے کی وصیت کر دی حالانکہ میرا والد موجود تھا۔
کیا اس وصیت پر عمل کرنا جائز ہے کہ نہیں اور اگر اس پر عمل نہ کیا جائے تو کیا میرا یہ پچا زاد میرے باپ کے ساتھ میرے دادا کے چھوڑے ہوئے مال سے وارث ہوگا؟
جواب: وصیت دو شرطوں کے ساتھ جائز ہے:
(1) وہ ایک تہائی مال کے برابر یا اس سے کم ہو۔ اگر تیسرے حصے سے زیادہ ہو تو درست نہیں ہو گی البتہ یہ کہ ورثا اس کے مرنے کے بعد اس کی اجازت دے دیں۔
(2) وہ وارث کے لیے نہ ہو، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دیا ہے، لہٰذا کسی وارث کے لیے وصیت نہیں۔“ [سنن أبى داود، رقم الحديث 3565 سنن الترمذي، رقم الحديث 2120]
اور علما کا اس پر اجماع اور اتفاق ہے۔
تمھارا یہ چچا زاد بھائی جس کا تم نے ذکر کیا ہے وہ چونکہ اپنے چچا (تمہارے باپ) کی وجہ سے محبوب (وراثت سے محروم) ہے لہٰذا اس کے لیے جو وصیت ہے وہ غیر وارث کے لیے وصیت ہے اور یہ ایک تہائی یا اس سے کم کی حدود میں جائز ہے۔
[الفوزان: المنتقى: 106]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے