اسلام میں وارث کے لیے وصیت کی ممانعت کی حکمت
اسلام نے وارث کے لیے وصیت کرنے سے منع کیا ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی حدود سے تجاوز ہے۔
اللہ تعالیٰ نے وراثت کی حدود متعین کی ہیں۔ ارشاد ہے:
«تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ ۚ وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴿١٣﴾ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُّهِينٌ» [النساء: 14,13]
”یہ اللہ کی حد میں ہیں اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے وہ اسے جنتوں میں میں داخل کرے گا، جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، ان میں ہمیشہ رہنے والے اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اور اس کی حدوں سے تجاوز کرے وہ اسے آگ میں داخل کرے گا، ہمیشہ اس میں رہنے والا ہے اور اس کے لیے رسوا کرنے والا عذاب ہے۔“
اگر کسی انسان کی ایک بیٹی یا حقیقی بہن ہو تو بیٹی کو صاحب فرض (متعین حصے کی مالک) ہونے کی بنا پر نصف مال ملے گا اور بہن کو عصبہ ہونے کی بنا پر باقی ماندہ۔ اگر ایسی صورت حال میں وہ شخص اپنی بیٹی کے لیے ایک تہائی حصے کی وصیت کر جاتا ہے تو اس کا مطلب ہوگا کہ بیٹی دو تہائی حصے لے لے گی اور بہن صرف تہائی حصہ، یہ اللہ تعالیٰ کی حدود سے تجاوز ہے۔
اسی طرح اگر اس کے دو بیٹے ہوں تو مال ان دونوں کے درمیان آدھا آدھا تقسیم ہو گا۔ اگر وہ ایک کے لیے ایک تہائی کی وصیت کر جاتا ہے تو مال ان کے درمیان تین تہائیوں میں تقسیم ہو گا (یعنی کل مال کے تین حصے ہوں گے جن میں دو حصے وصیت والا لے جائے گا اور ایک حصہ دوسرا) اور اس میں حدود اللہ سے تجاوز ہے، اس لیے یہ حرام ہے، نیز اگر ایسا کرنا جائز ہوتا تو پھر وراثت میں حصوں کی تعیین بلا فائدہ ہوتی، لوگ جس طرح چاہتے کھلواڑ کرتے، ہر کوئی جس کے لیے چاہتا وصیت کر جاتا اور ترکے سے اس کا حصہ بڑھ جاتا اور جسے چاہتا محروم کر دیتا اور اس کا حصہ وراثت سے کم ہو جاتا۔
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 1/249]