جمائی کے آداب اور اس کے متعلق اسلامی تعلیمات
مؤلف : ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ

«باب من تثاءب فليضع بيده على فمه»
جمائی لینے والے کو اپنا ہاتھ اپنے منہ پر رکھنا چاہیے

✿ «عن ابي هريرة، عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: إن الله يحب العطاس، ويكره التثاؤب، ‏‏‏‏ فإذا عطس احدكم وحمد الله كان حقا على كل مسلم سمعه ان يقول له: يرحمك الله، واما التثاؤب فإنما هو من الشيطان، ‏‏‏‏ فإذا تثاؤب احدكم فليرده ما استطاع، فإن احدكم إذا تثاءب ضحك منه الشيطان.» [صحيح: رواه البخاري 6226]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقینا اللہ تعالی چھینک کو پسند کرتا ہے، اور جمائی کو نا پسند فرماتا ہے۔ پس جب تم میں سے کوئی شخص چھینک دے اور الحمد للہ کہے، تو ہر مسلمان جس نے اس کو سنا اس پر ضروری ہے کہ اس کے حق میں «يرحمك الله» (اللہ تم پر رحم فرمائے) کہے، اور جہاں تک جمائی کا سوال ہے وہ تو شیطان کی طرف سے ہے۔ جب تم میں سے کوئی جمائی لے تو اس کو اپنی استطاعت کے مطابق دور کرے۔ کیوں کہ جب تم جمائی لیتے ہو تو شیطان اس پر ہنستا ہے۔

✿ «عن أبى هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال تثاؤب من الشيطان فاذا تثاؤب أحدكم فليكظم ما استطاع.» [صحيح: رواه مسلم 2994.]
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جمائی شیطان کی طرف سے ہے۔ جب تم میں سے کسی کو جمائی آجائے، تو اپنی استطاعت بھر اس کو روکے۔

✿ «عن أبى بي سعيد الخدري قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ” إذا تثاءب احدكم فليضع فليمسك بيده على فيه، فإن الشيطان يدخل. وفي لفظ: إذا تثاءب احدكم فى الصلاة فليكظم ما استطاع فان الشيطان يدخل.» [صحيح: رواه مسلم 2995: 57 باللفظ الأول. ورواه 2995: 59 باللفظ الثاني.]
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی جمائی لے، تو اس کو اپنا ہاتھ اپنے منہ پر رکھ لینا چاہیے، کیوں کہ شیطان داخل ہوتا ہے۔
دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں: جب تم میں سے کسی کو نماز کی حالت میں جمائی آئے، تو اسے اپنے استطاعت بھر روکے۔ کیوں کہ شیطان داخل ہوتا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے