اللہ تعالی کن لوگوں سے محبت نہیں فرماتا
یہ تحریر ابو حمزہ عبد الخالق صدیقی کی کتاب اولیاء اللہ کی پہچان سے ماخوذ ہے۔

اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے صفت ”محبت“ بھی ہے ، کہ وہ اپنے بندوں سے اور بعض دوسری چیزوں کو پسند فرماتا ہے، اور ایسے ہی نافرمانوں ، کفر کرنے والوں اور بعض دوسری اشیاء کو ناپسند فرماتا ہے ، یہ بھی صفاتِ الہیہ میں سے ہے۔ ذیل کی سطور میں بطور فائدہ کے ہم ”اللہ کی صفت محبت“ کا ذکر کیے دیتے ہیں۔ جن چیزوں کو اور جن افعال کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا، ان میں سے ”اعتداء“ زیادتی بھی ہے۔ اس کے اہل یعنی زیادتی کرنے والوں کو اللہ تعالی پسند نہیں فرماتا۔ چنانچہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ﴾
[الأعراف:55]
”پکارو تو اپنے رب کو آہ و زاری کرتے ہوئے اور چپکے چپکے، تحقیق وہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ “
عبدالرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ علیہ اس آیت کے تحت رقم طراز ہیں:
”دعا“ میں دعائے مسئلہ اور دعائے عبادت دونوں شامل ہیں پس اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ وہ اسے پکاریں ﴿تَضَرُّعًا﴾ ”عاجزی سے“ یعنی گڑ گڑا کر اللہ تعالی سے معافی مانگیں، اور جم کر اس کی عبادت کریں۔ ﴿وَخُفْيَةً﴾ ”چپکے سے“ یعنی بآواز بلند اور علانیہ نہ گڑ گڑائیں جس سے ریا کا خدشہ ہو، بلکہ چھپ چھپ کر خالص اللہ تبارک و تعالیٰ کے لیے آہ وزاری کریں ۔ ﴿إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ﴾ ”وہ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا“ یعنی تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا یہ بھی حد سے تجاوز ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ سے ایسی چیزوں کا سوال کرے جو بندے کے لیے درست نہیں یا وہ سرے سے سوال کرنا ہی چھوڑ دے یا وہ بہت زیادہ بلند آواز میں دعا مانگے، یہ تمام اُمور تجاوز میں شامل ہیں، جو ممنوع ہیں۔ (تفسیر السعدی : 1 / 884)
دوسری جگہ خالق ارض و سما نے ارشاد فرمایا:
﴿وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا ۚ إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ﴾
[الأعراف:56]
” اور زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد نہ پھیلاؤ، اور اسے خوف اور طمع سے پکارو۔ بے شک اللہ کی رحمت نیکی کرنے والوں کے قریب ہے۔ “
فضیلۃ الشیخ عبدالرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ علیہ رقم طراز ہیں:
﴿وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ﴾ ”اور زمین میں فساد نہ پھیلاؤ“ یعنی اپنی نافرمانیوں کے ذریعے سے زمین میں فساد نہ پھیلاؤ ۔ ﴿بَعْدَ إِصْلَاحِهَا﴾ ”اس کی اصلاح کے بعد“ یعنی اطاعت اور نیکی کے ذریعے سے اس کی اصلاح کر لینے کے بعد کیونکہ معاصی ، اخلاق، اعمال اور رزق کو فاسد کر دیتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ﴾
[الروم:41]
” لوگوں کی بد اعمالیوں کے سبب سے بحرو بر میں فساد پھیل گیا۔ “
جیسے نیکیوں سے اخلاق ، اعمال، رزق اور دنیا و آخرت کے احوال کی اصلاح ہوتی ہے۔ (تفسیر السعدی : 1/ 884)
ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے زمین پر فساد کرنے والوں کے متعلق یوں فرمایا:
﴿وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ ۖ وَلَا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا ۖ وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ ۖ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْأَرْضِ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ﴾
[القصص:77]
” اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے تجھے دے رکھا ہے، اس میں سے آخرت کے گھر کی تلاش بھی رکھ، اور اپنے دنیوی حصے کو بھی نہ بھول اور جیسا کہ اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے تو بھی اچھا سلوک کر اور زمین میں فساد کا خواہاں نہ ہو، بے شک اللہ فساد کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا ۔ “
نیز فرمایا:
﴿وَإِمَّا تَخَافَنَّ مِن قَوْمٍ خِيَانَةً فَانبِذْ إِلَيْهِمْ عَلَىٰ سَوَاءٍ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْخَائِنِينَ﴾
[الأنفال:58]
” اور اگر تجھے کسی قوم کی خیانت کا ڈر ہو تو برابری کی حالت میں ان کا عہد نامہ توڑ دے۔ اللہ تعالی خیانت کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔ “
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں:
”اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر کسی سے تمہارا عہد و پیمان ہوا ہو ، اور تمہیں خوف ہو کہ یہ بد عہدی اور وعدہ خلافی کریں گے تو تمہیں اختیار دیا جاتا ہے کہ برابری کی حالت میں عہد نامہ توڑ دو، اور انہیں اطلاع کر دو تاکہ وہ بھی صلح کے خیال میں نہ رہیں، کچھ دن پہلے ہی سے انہیں خبر دو، اللہ رب العزت خیانت کو نا پسند فرماتا ہے، کافروں سے بھی تم خیانت نہ کرو۔“ (تفسیر ابن کثیر)
سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے لشکروں کی روم کی سرحد کی طرف پیش قدمی شروع کی کہ مدت صلح ختم ہوتے ہی ان پر اچانک حملہ کر دیں، تو ایک شیخ اپنی سواری پر سوار یہ کہتے ہوئے آئے کہ اللہ بہت بڑا ہے ، اللہ بہت بڑا ہے۔ وعدہ وفائی کرو، عذر درست نہیں ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ :
من كان بينه وبين قوم عهد فلا يشد عقدة ولا يحلها حتى ينقضي آمدها أو ينبذ إليهم على سواء . فرجع معاوية
مسند احمد: 111/4 – سنن ابو داؤد، کتاب ،الجهاد، رقم : 2759 – سنن ترمذی ، رقم : 1580۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
” جب کسی قوم سے عہد و پیمان ہو جائیں تو نہ کوئی گرہ کھولو ، نہ باندھو، جب تک کہ مدت صلح ختم نہ ہو جائے یا انہیں اطلاع دے کر عہد نامہ چاک نہ ہو جائے ۔ جب یہ بات سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو آپ نے اس وقت فوج کو واپسی کا حکم دے دیا۔ یہ شیخ سیدنا عمر و بن عنبسہ رضی اللہ عنہ تھے۔“

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے