اسلام کا تصور عبادت:
اسلام نے جو تصور عبادت پیش کیا وہ صرف معبود واحد کی عبادت کا تصور ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں کسی غیر کو شریک کی سزا جہنم ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴾
[البقرة: 21]
”اے لوگو، اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمھیں پیدا کیا اور ان لوگوں کو پیدا کیا جو تم سے پہلے گزر گئے، تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔“
سورۃ النساء میں ارشاد فرمایا:
﴿وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا﴾
[النساء: 36]
”اور اللہ کی عبادت کرو، اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو، اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور رشتہ دار پڑوسی اور اجنبی پڑوسی اور پہلو سے لگے ہوئے دوست اور مسافر اور غلاموں اور لونڈیوں کے ساتھ ۔ بے شک اللہ تعالیٰ اکڑنے والے اور بڑا بننے والے کو پسند نہیں کرتا ۔“
اس آیت کریمہ میں اللہ رب العزت نے اپنے مومن بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ صرف اسی کی عبادت کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ بنائیں، اس لیے کہ وہی خالق و رازق ہے اور اس کے احسانات تمام مخلوقات کو عام اور شامل ہیں۔ اس لیے بندوں پر اس کا حق ہے کہ وہ صرف اسی کی عبادت کریں اور کسی کو اس کے ساتھ شریک نہ بنائیں۔
چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے پوچھا، کیا تم جانتے ہو کہ بندوں پر اللہ کا کیا حق ہے؟ تو انھوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ صرف اسی کی عبادت کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ بنائیں۔ پھر آپ نے کہا، کیا تم جانتے ہو کہ اگر بندے ایسا کریں تو ان کا اللہ پر کیا حق ہے؟ کہ اللہ انھیں عذاب نہیں دے گا۔
صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم: 6500 ۔ صحیح مسلم، کتاب الایمان، رقم: 304
ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ اقدس پر ارشاد فرمایا:
﴿قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا﴾
[الكهف: 110]
”آپ کہہ دیجیے کہ میں تو تمھارے ہی جیسا ایک انسان ہوں، مجھے وحی آتی ہے کہ تمھارا معبود صرف ایک ہے، تو جو شخص اپنے رب سے ملنے کا یقین رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے، اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے ۔ “
عبادت کی اقسام:
عبادت کی تین اقسام ہیں:
(1) قولی عبادت (2) بدنی عبادت اور (3) مالی عبادت ۔
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھتے تو ہم کہتے: جبریل اور میکائیل پر سلامتی ہو، فلاں اور فلاں پر سلامتی ہو، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے، اور فرمایا کہ: یقینا اللہ تعالیٰ تو سلامتی والا ہے، پس جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو وہ کہے:
التحيات لله والصلوات والطيبات السلام عليك أيها النبى ورحمة الله وبركاته، السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين، أشهد أن لا إله إلا الله واشهد أن محمدا عبده ورسوله
صحیح بخاری، کتاب الاذان ، رقم: 831۔ صحیح مسلم، کتاب الصلاة، رقم: 402
”میری تمام قولی ، عملی اور مالی عبادتیں اللہ کے لیے ہیں، اے نبی! آپ پر سلام ہو، اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکت نازل ہو، سلام ہو ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ “
نصرت اسلام کا حکم:
اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں سے فتح و کامرانی کا وعدہ کیا ہے، اور فرمایا کہ اگر وہ لوگ اس کے دین کی نصرت کریں گے تو وہ ان کی مدد کرے گا، ارشاد فرمایا:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ﴾
[محمد: 7]
”اے ایمان والو! اگر تم اللہ (کے دین) کی مدد کرو گے تو وہ تمھاری مدد کرے گا، اور تمھیں ثابت قدمی عطا کرے گا۔“
دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو حکم دیا کہ وہ ہر حال میں اپنی جانوں، اموال، اقوال اور افعال کے ذریعہ اس دین حق کی مدد کرتے رہیں جیسے اللہ نے اپنی اطاعت و بندگی کے لیے نازل کیا ہے اور جیسے عیسی علیہ السلام کے حواریوں نے ان کی آواز پر لبیک کہا، دعوت الی اللہ کے کام میں ان کا ساتھ دیا، اور اُن سے اپنی جانوں کی قربانی دینے کا وعدہ کیا، اسی طرح وہ بھی اللہ اور اس کے رسول کا ہر طرح ساتھ دینے کے لیے تیار ہیں۔ ارشاد فرمایا:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا أَنصَارَ اللَّهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيِّينَ مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللَّهِ ۖ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ اللَّهِ ۖ فَآمَنَت طَّائِفَةٌ مِّن بَنِي إِسْرَائِيلَ وَكَفَرَت طَّائِفَةٌ ۖ فَأَيَّدْنَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَىٰ عَدُوِّهِمْ فَأَصْبَحُوا ظَاهِرِينَ﴾
[الصف: 14]
”اے ایمان والو! اللہ کے مددگار بن جاؤ، جیسا کہ عیسی بن مریم نے حواریوں سے کہا کہ دعوت الی اللہ کی راہ میں میری کون مدد کرے گا ، حواریوں نے کہا، ہم اللہ کے دین کی مدد کرنے والے ہیں، پس بنی اسرائیل کی ایک جماعت ایمان لے آئے گی ، اور دوسری جماعت کافر ہوگئی، تو ہم نے ایمان والوں کی اُن کے دشمنوں کے مقابلہ میں مدد کی ، پس وہ غالب ہو گئے۔ “
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ: جب حواریوں نے عیسی علیہ السلام سے کہا کہ آپ کی دعوت لوگوں تک پہنچانے کے لیے ہم آپ کی مدد کریں گے، تو انھوں نے انھیں اسرائیلیوں اور یونانیوں کے پاس توحید کی دعوت کے ساتھ بھیجا۔ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی حج کے دنوں میں اسی طرح کہا کرتے تھے کہ کون ہے جو مجھے پناہ دے، تاکہ میں اپنے رب کا پیغام لوگوں تک پہنچاؤں ، اس لیے کہ قریش نے مجھے اس کام سے روک دیا ہے۔ چنانچہ اللہ نے ان کی مدد کے لیے مدینہ کے اوس و خزرج والوں کے دلوں کو مسخر کر دیا، انھوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی، آپ کی مدد کی، اور کہا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ آجائیں گے تو ہم ہر طرح آپ کا دفاع کریں گے۔ اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیگر مہاجرین کے ساتھ ہجرت کر کے وہاں پہنچے تو انھوں نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ اسی لیے اللہ اور اس کے رسول نے انھیں ”انصار“ کا لقب دیا، جو ان کا نام بن گیا۔
تفسير ابن كثير تحت الآية
مفسرین لکھتے ہیں کہ اس میں مومنوں کو ان کے رب کی جانب سے نصرت و تائید اور فتح و کامرانی کی خوشخبری دی گئی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ دین حق کی سربلندی کے لیے متحد ہو کر کوشش کریں، اور نزاع و اختلاف سے یکسر دور رہیں ۔ وباللہ التوفیق ۔
عن زيد بن ثابت رضي الله عنه قال لما قدم النبى صلى الله عليه وسلم المدينة أتي بي إليه فقرأت عليه فقال لي تعلم كتاب اليهود فإني لا أمنهم على كتابنا
سلسله احادیث صحیحه، رقم الحدیث: 187
”سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب نبی مدینہ تشریف لائے تو مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا میں آپ کے (نام آنے والی دستاویز) پڑھتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ارشاد فرمایا: یہودیوں کا خط (اور زبان) سیکھ لو میں ان کی طرف سے قرآن مجید کے بارے میں مطمئن نہیں ہوں۔ “
قالت عائشة: فسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لحسان: إن روح القدس لا يزال يؤيدك ما نا فعت عن الله ورسوله
سلسله احادیث صحیحه، رقم: 118۔ صحیح مسلم، رقم: 2490
”سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حسان کے حق میں یہ فرماتے سنا روحِ قدس (جبریل امین) تیری تائید کرتا رہے گا جب تک تو اللہ اور اس کے رسول کا دفاع کرتا رہے گا ۔ “
عن ابن مسعود رضي الله عنه قال: إن الله نظر فى قلوب العباد فوجد قلب محمد صلى الله عليه وسلم خير قلوب العباد ، فاصطفاه لنفسه فابتعثه برسالته ثم نظر فى قلوب العباد بعد قلب محمد، فوجد قلوب أصحابه خير قلوب العباد، فجعلهم وزراء نبيه يقاتلون عن دينه فما راه المسلمون حسنا فهو عند الله حسن، وما راه المسلمون سينا فهو عند الله سينى
مسند احمد: 379/1- مجمع الزوائد: 177/1، 178 – شیخ احمد شاکر نے اسے صحیح الاسناد قرار دیا ہے۔
”سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یقینا اللہ عزوجل نے بندوں کے دلوں کو دیکھا تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر کو سب سے اچھا پایا، لہذا آپ کو اپنی رسالت کے لیے چن لیا اور اپنی رسالت دے کر مبعوث فرمایا، پھر بندوں کے دلوں کو دیکھا تو صحابہ کے قلوب کو سب سے بہتر پایا لہذا انھیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معاون بنا دیا جو اس کے دین کی خاطر لڑتے ہیں۔ لہذا جو مسلمان بہتر سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی بہتر ہے اور جس کو مسلمان برا تصور کریں وہ اللہ کے نزدیک بھی بُرا ہے۔ “
جو لوگ دین اسلام کی مدد کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ بھی اُن کی مدد فرماتا ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا:
﴿إِنَّ اللَّهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا﴾
[الحج:38]
” بے شک اللہ تعالیٰ اہل ایمان کا دفاع کرتا ہے۔ “
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
﴿وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ﴾
[الروم:47]
”اور ہم پر مومنوں کی مدد کرنا واجب ہے۔ “
خون دل دے کے نکھاریں گے رُخ برگ گلاب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے